تعارف
بلال ابنِ رباح، حضرت محمدﷺ کے دور کے سب سے قابلِ اعتماد اور وفادار صحابہ میں سے تھے۔ وہ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ وہ حضرت بلالؓ حبشی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ حضرت بلالؓ کا قد لمبا اور رنگ سیاہ تھا۔ اِن کے ہونٹ موٹے اور آنکھیں چمکدار تھی۔ والد کا نام رباح اور والدہ کا نام حمامہ تھا۔ اِن کے والد رباح، بنو جُمح کے قبیلے کے ایک عربی غلام تھے۔ حضرت بلالؓ کا شمار چند اُن افراد میں ہوتا ہے، جنھوں نے اسلام قبول کرنے میں پہل کی۔ وہ مسجد نبوی کے موذن تھے۔
اسلام کا قبول کرنا
جب حضرت محمدﷺ نے نبوت کا اعلان کیا اور اسلام کی تبلیغ شروع کی۔ اس وقت حضرت بلالؓ نے بت پرستی چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا۔
اُمیہ بن خلف کے مظالم
حضرت بلالؓ اُمیہ بن خلف کے غلام تھے۔ اُمیہ بن خلف مسلمانوں کا سخت دشمن تھا۔ اُمیہ بن خلف کو جب حضرت بلالؓ کے اسلام قبول کرنے کا پتہ چلا تو انہوں نے آپؓ پر بہت ظلم کرنے شروع کر دیئں۔ وہ انہیں گرم تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر سینے پر پتھر کی چٹان رکھ دیتا تھا۔ تا کہ آپؓ حرکت نہ کر سکیں۔ وہ آپؓ کو رات میں زنجیروں سے باندھ کر کوڑے لگاتے تھے۔ دن میں آپکو گرم زمین پر لٹا کر ان زخموں کو مزید زخمی کرتے تھے۔ اُمیہ بن خلف آپؓ کو اسلام سے پھیرنے کے لیے مظالم کرتا تھا۔ لیکن حضرت بلالؓ یہ سب مظالم سہہ کر بھی ‘اَحد اَحد’ (اللہ ایک ہے ، اللہ ایک ہے) کہتے تھے۔ اِن کو طرح طرح کی تکلیفیں دی جاتی تھی۔ تکلیفیں دینے والے تھک جاتے تھیں مگر حضرت بلالؓ اسلام پر ڈٹے رہے۔
حضرت بلالؓ کی آزادی
حضرت بلالؓ پر ہونے والے مظالم کی اطلاع حضرت محمدﷺ تک ان کے کچھ ساتھیوں سے پہنچی۔ آپﷺ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو آپؓ کی آزادی کی بات کرنے کے لیے بھیجا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے آپؓ کو خرید کر قید سے آزاد کروایا۔ آزادی حضرت بلالؓ کے لیے اسلام کا سب سے پہلا تحفہ تھا
اذان کی شروعات
ابتداٰء میں مسلمانوں کو نماز کے لیے بلانے کا مسلہ در پیش آیا۔ اس کے لیے بہت سے مشورے کیے گئے اور بہت سی تجویزات پیش کی گئیں۔ لیکن کوئی بھی حضرت محمدﷺ کو پسند نہ آئی۔ ایک صحابیؓ عبداللہ بن زید نے خواب میں اذان کے الفاظ سنے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص نے مسجد کی چھت پر کھڑے ہو کر اونچی آواز میں اذان کے الفاظ کہے ہیں۔ آپؓ صبح بیدار ہو کر حضرت محمدﷺ کے پاس گئے اور سارہ خواب سنایا۔ خواب سن کر آپؐ نے فرمایا کہ بلال کے پاس جاؤ اور اذان کے کلمات یاد کروا دو۔ انہیں کہو کہ ہر نماز کے وقت بلند آواز میں پکارا کریں۔ اس طرح اذان کا آغاز ہوا جو تا قیامت جاری رہے گا۔
جنت میں جوتوں کی آہٹ
حضرت محمدﷺ نے ایک مرتبہ فجر کے وقت حضرت بلالؓ سے فرمایا کہ
بلال مجھے بتاؤ کہ تم نے ایسا کونسا کام کیا ہے جسکی وجہ سے میں نے تمہارے جوتوں کی آہٹ جنت میں سنی۔
اس پر حضرت بلالؓ نے کہا کہ میں نے کچھ ایسا نہیں کیا جو باقی تمام اعمالوں سے زیادہ اُمید دلانے والا ہو۔ سوائے اس کے کہ میں جب بھی وضو کرتا ہوں تو نفلی نماز ‘تحیتہ الوضو’ ضرور پڑھتا ہوں۔
نسلی مساوات کی مثال
حضرت بلالؓ کو حضرت محمدﷺ نے بیت المال کا وزیر بنایا۔ جہاں سے آپؓ بیواؤں، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ آپؓ کو سب سے پہلی مرتبہ اذان دینے کا شرف حاصل ہے۔ حضرت بلالؓ کو اسلام میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ جو کہ نسلی مساوات کی سب سے بڑی مثال ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت بلالؓ کے لیے مدینہ منورہ میں وقت گزارنا مشکل لگتا تھا۔ اس لیے انہوں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے اجازت لی کہ وہ انہیں جہاد کے لئے ‘شام’ جانے دیں۔ پھر انہوں نے شام میں ہی اپنی ساری زندگی گزار دی۔ اس کے بعد انہوں نے صرف دو بار اذان دی تھی۔ ایک بار جب حضرت عمرؓ شام تشریف لائے۔ دوسری بار جب آپؓ رسول اللہﷺ کی قبر پر مدینہ منورہ تشریف لائے۔ اس وقت جب لوگوں نے آپؓ کی اذان کی آواز سنی تو لوگوں نے زارو قطار رونا شروع کردیا۔ کیونکہ آپؓ کی آواز نے سبکو حضرت محمدﷺ کے دور کی یاد دلا دی تھی۔
وفات کا وقت
جب حضرت بلالؓ کی وفات کا وقت قریب آگیا تو اِن کی بیوی بہت غمزدہ ہوئی۔ اِن کی بیوی نے کہا یہ کتنی مصیبت کا وقت ہے۔ اس پرحضرت بلالؓ نے کہا۔ نہیں یہ بہت خوشگوار وقت ہے کہ میری جلد اپنے پیارے محمدﷺ اور اِن کے ساتھیوں سے ملاقات ہو گی۔
وفات
حضرت بلالؓ نے ۶۳ سال کی عمر میں ۲۰ ہجری کو دمشق میں وفات پائی۔ آپؓ دمشق میں بابِ صفیر کے پاس مقبرہ میں دفن ہیں۔ آپؓ نے اپنی زندگی کے ۳۳ سال اسلام کی خدمت میں گزارے۔