از قلم :کاشر
یوں تو سیاست سنت ہے لیکن آج کے دور میں سیاست کسی اور ہی چیز کا نام ہے ۔ایشیا میں اس کی تعریف بدل جاتی ہے اور پاکستان کا بارڈر کراس کرتے ہی سیاست کا معنی و مفہوم بدل جاتا ہے ۔یہاں بے بے دردی ،بے غیرتی اور بے شرمی کا نام سیاست ہے۔ جوں ہی پاکستان سے دریائےِکشن گنگا (دریائے جہلم) کراس کر کے کشمیر کی حدود میں داخل ہوں گے تو سیاست کے معنی و مفعوم اور بھی بدل جائیں گے۔ ہر دکان پہ آپ کو قائدِ کشمیر ، فخرِ کشمیر،مجائدِاول، غازیِ ملت و دیگر کئی قسم کے برینڈ ملیں گئے۔
ان برینڈز کے بارے میں آپ کو مختلف قسم کے خیالات والے لوگوں سے مختلف قسم کی باتیں سننے کو ملیں گی ۔اس کے بعد پاکستان کے مختلف برینڈ کی فرینچائزز بھی آپ کو ملیں گی جس میں ن لیگ، پیپلز پارٹی، جماعتِ اسلامی ، مولانا فصل الرحمن کی پارٹی آپ کو کشمیر میں ملے گی۔الیکشن کا وقت قریب آتے ہی آپ کو سیاست دان اپنے سیاسی قبلے تبدیل کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اور اپنے ماضی قریب کے قائد کو برا بھلا کہتے نظر آئیں گے۔ابھی چونکہ جون ۔جولائی میں کشمیر میں الیکشن آنے والے ہیں تو یہ سیاسی قبلے بدلنے کا وقت بھی شروع ہو چکا ہے۔اس بار پاکستان میں حکومت کرنے والی تحریکِ انصاف اپنا دوسرا الیکشن کشمیر میں لڑنے جا رہی ہے۔اور یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ اکثریت کے ساتھ حکومت بھی بنائے گی۔ اسی سلسلے میں میرے کپتان نے اپنے ایک آل راؤنڈ کو کشمیر کی سیاست میں داخل کیا ہے۔وہ کھلاڑی اس وقت میرے کپتان کے نائب کپتان عثمان بزدار کے معاونِ خصوصی جناب سردار تنویر الیاس صاحب ہیں۔
میرے کپتان نے اپنے اس کھلاڑی کو کشمیر میں زبردست ٹیم بنانے اور میچ جیتنے کا مشن دیا ہے اب وہ کپتان کے اس امید پر پورے اترتے ہیں ہا نہیں اس کے لیے انتظار کرنا پڑے گا۔دوسری طرف آج سے چار روز قبل کشمیر کے ایک اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ سابق وزیرِصحت سردار قمر الزماں صاحب پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر میرے کپتان کی پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں ۔حلقے میں لوگ بھٹو کی نمازِجناہ کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک میرے کپتان کے کھلاڑی نے ٹویٹ کر کہ اس خبر کو مسترد کر دیا۔اس کے دوسرے روز سردار قمرالزماں صاحب نے پریس کانفرنس کر کہ عوام کا “تراہ” نکال دیا ۔اور ایک دبنگ اعلان کیا کہ میں پیپلز پارٹی سے ہی الیکشن لڑوں گا اور وزیر بننے کے لیے نہیں ۔۔۔وزیرِاعظم بننے کے لیے اور ساتھ ہی دس بڑے جلسے کرنے کا بھی اعلان کر دیا۔
نون لیگ جو کہ ابھی اقتدار میں ہے وہ بھی اب میدان میں کافی گرم نظر آ رہی ہے لیکن عوام کی بھلائی کے لیے سرگرمِ عمل نہیں ہے۔ویسے تو ماضی میں جو بھی پارٹی وفاق میں حکومت میں رہی اسی نےُکشمیر میں بھی حکومت کی۔لیکن کیا اب کی بار کچھ بدلنے والا ہے یا وہی ماضی کی تاریخ ہی دھرائی جائے گی سب اسی انتظار میں ہیں