Skip to content

تیل پر قبضہ کرنے کی سیاست۔۔۔۔۔۔ تحریر: عزیزاللہ غالب

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ امریکی اور بر طانوی رہنماؤں کی ہر سیاسی حکمت عملی کا محور تیل ہے۔ جس کی بدولت انتہا پسندی اور دہشت گردی کی جو بھی لہر آتی ہے اس کے پیچھے امریکن پروپیگنڈہ اور مفادات پر مبنی سیاست پنہاں ہوتی ہے۔ یہ بھی اک حقیقت ہے کہ دنیا کے بڑے تیل پیدا کرنے اور تیل برآمد کرنے والے ممالک سعودی عرب، عراق، ایران،کویت اور عرب امارات ایک ہی خطے میں واقع ہیں۔جن کے پاس دنیا کے تیل کے نصف سے زائد ذخائر موجود ہیں اور اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا کہ عراق پر امریکی حملے کا اصل مقصد بھی تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا تھا۔ ایسے میں امریکا اس خطے کے تیل پر اپنی گرفت رکھنے کے لئے ان ممالک میں اپنی عسکری موجودگی کا جواز پیدا کرتا رہتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی بڑا واضح ہے کہ آج کا دور آزاد معیشت کا دور کہلاتا ہے جو جدید نو آبادیاتی دور کی نئی شکل ہے اس میں بھی غیر ملکی مداخلت، استحصال اورلوٹ کھسوٹ کے خلاف آواز بلند کرنے والے فرد،گروہ یا ملک کو دہشت گرد،تخریب کار، انتہا پسند، مغرب مخالف اور عالمی امن کے لے خطرہ قرار دے کر اس کی آواز دبا دی جاتی ہے۔امریکہ عالمی منڈی میں اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے عالمی مالیاتی مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی بالادستی چاہتاہے اور ان مقاصد کے حصول کے لئے جمہوریت، انسانی حقوق اور معیشت کے نمائشی نعروں کی آڑ میں اپنی عسکری قوت کا بھی بے دریغ استعمال چاہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکی رہنماؤں نے کسی بھی مسئلے کو جواز بناکر یا بہانہ تراش کر ہر اس رہنما کو راستے سے ہٹایا اور اس ملک کے خلاف طاقت کا استعمال کیا یا حکومت کا تختہ پلٹ دیا جس نے امریکی مفادات کے راستے میں حائل ہونے یا ان پر تنقید کی جرات کی
اسی طرح آپ دیکھیں کہ 1991 میں امریکا کے نائب صدر ڈک چینی نے آئل سروس کمپنی، ہیلی برٹن کے سربراہ کی حیثیت سے کہا تھا۔ ”مزید تیل کہاں سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مشرق وسطی ہی وہ جگہ ہوسکتی ہے جہاں دنیا کے تیل کے دوتہائی ذخائر موجود ہیں اور تیل نکالنے کی لاگت بھی کم آتی ہے۔ یہاں سے ہی ہمیں فائدہ حاصل ہو سکتا ہے“۔ اس وقت ان کے ذہن میں بھی عراق تھا۔اس لئے ایسی صورت حال میں جہاں توانائی کے حصول کے لیے نئے خطرات پیداہوتے جارہے ہیں،عراق ہی ایسا علاقہ ہے،جس کے لئے ہر قیمت اداکی جاسکتی ہے۔ یہ قیمت تین ہزار سے زیادہ امریکیوں کی ہلاکت اور دنیا بھر میں امریکا کی بد نامی تک پہنچ گئی ہے۔ عراق اسٹڈ ی گروپ کی ایک رپورٹ میں جب فوجیں واپس بلانے کی سفارش کی گئی تھی تو صدر بش نے کہا تھا کہ اگر عراق میں انہیں شکست ہوگئی تو امریکی بچوں کا مستقبل خطرے میں پڑجائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ معاشی ترقی کا انحصار مشرق وسطی سے حاصل کی جانے والی توانائی پر ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *