نمبر1۔874ء(260ھ)میں خلافت عباسیہ کےدور میں اسد بن سامان کےنام پر”سامانی سلطنت“نےماوراء النہر(ازبکستان،تاجکستان قازقستان)،افغانستان اور خراسان میں حکومت کی۔سامانی حکومت کے کمزوراورصوبےخودمختارہونےپرایک صوبہ دار سبکتگین نے366سے387ھ یعنی977تا997ء)میں غزنی شہرمیں ایک آزادحکومت قائم کی۔375ھ یعنی 986ءمیں ہندوستان کےراجہ جے پال نے سبکتگین کی بڑھتی طاقت کوختم کرنےکیلئے غزنی پرحملہ کرناچاہاتوسبکتگین نےپشاوراورجلال آباد کے درمیان اُسے شکست دے کراپنی حکومت کو وسیع کیا۔
نمبر2۔سبکتگین کا بیٹا محمودالمعروف محمود غزنوی (پیدائش 361- وفات420ھ،عمر59 سال)971 سے 1030غزنویہ کاپہلا آزاداہلسنت سلطان حکمران تھا جس نےتیس سال(999سے1030) میں شمال مغربی ایران،برصغیر میں پنجاب،ماوراءالنہراور مکران(بلوچستان)تک حکومت کووسیع کیا۔عباسی خلیفہ نےسلطان محمودغزنوی کو”یمین الدولہ“کا خطاب بھی دیا۔
نمبر3۔سلطان محمود غزنوی پشاوراپنی سلطنت کا دفاع بھی کرتااورمخالفین کے خلاف تیزی سے کاروائی بھی کرتا۔راجہ جے پال سبکتگین سے اپنی شکست نہیں بھولا تھا،اسلئے1001ء(391ھ)میں غزنی پرحملہ کرنے نکلا،پشاور کے پاس سلطان محمود غزنوی سے ٹکرا کر شکست کھاکرگرفتار ہوا، تاوان دے کر چھوٹ کر لاہور واپس آیا،اپنے بیٹے انندپال کرراجہ بنا کرشرمندگی سےخودکشی کر لی۔
نمبر4۔سلطان محمود غزنوی نے 1004ء(395ھ)بھیرہ کے راجہ پرحملہ کیاکیونکہ تاوان نہیں دے رہا تھا، میدان سے بھاگ کراس نے خود کشی کر لی۔ 1006ء(396ھ)میں سلطان ملتان کےحاکم ابوالفتح داؤد،رافضی،قرامطہ فرقہ،مکہ مدینہ پر حملہ کرنے والوں پر حملہ کرنےنکلا مگرراستے میں جے پال کے بیٹے انند پال سے مقابلہ ہوگیا،وہ شکست کھاکرکشمیربھاگ گیا۔سلطان محمودغزنوی ملتان گیا،وہاں جے پال کے پوتے سکھ پال نے اسلام قبول کیا،اس کو حاکم مقررکیا لیکن سکھ پال نے بعد میں بغاوت کر دی تو 1008ء(398ھ) میں سلطان نے سکھ پال کو شکست دے کر معزول کر کے اپنا حاکم مقرر کیا۔
نمبر5۔ 1008ء(399ھ)کےآخرمیں انند پال نے دیگر راجاؤں سے مدد لےکر ایک لشکرتیارکیامگرایک بار پھر شکست ہوئی۔ 1009ء(400ھ)میں سلطان محمود نے ہندوستان میں نرائن پورکی ریاست کو فتح کیا۔1010ء(401ھ)ملتان کے قرامطی فرقے کا کام تمام کیا۔1014ء(405ھ)میں انند پال کے بیٹے لوجن پال اور اس کے ساتھ آئے کشمیری ہندؤں کوشکست دی۔سلطان کئی دفعہ کشمیر کے لئے نکلا مگر برف باری کی وجہ سے واپس آناپڑااور زندگی میں کشمیر فتح نہ کیا۔
نمبر6۔ سلطان نے تھانیسر،غزنی کے راستے کے جتنے قلعے اُن کو،1018ء(409ھ)ہندؤں کے مذہبی مقام متھراکوفتح کیا۔مشہور ریاست قنوج کا محاصرہ کرکے راجہ سے صلح کر کے باجگزار بنایا۔1019ء (410ھ)میں قنوج کے راجہ کوکالنجر کے راجہ گنڈا نے قتل کیاتوسلطان نےاس کابدلہ لینےکےلئےحملہ کر اس کو شکست دی۔پھر راجہ لوجن پال اورراجہ گنڈا نے حملے کی تیاری کی تو سلطان نے دونوں کو شکست دے کر ہندوستان سے ہندو شاہی راجہ کا خاتمہ کر دیا۔
نمبر7۔ سلطان محمود غزنوی 1020سے1025ءتک دوسرے علاقوں میں مصروف رہااور ہندوستان کی بہت سی ریاستوں نے اکٹھا ہو کر گجرات کے کاٹھیا وارمیں سومنات مندر کو مرکزبنایااورپلاننگ کی کہ سلطان کو سبق سکھایا جائے۔ سلطان بے خبر نہیں تھا بلکہ وہ دفاعی انداز جانتا ہی نہیں تھا،اسلئے خود 1025ء(416ھ) میں غزنی سے نکلا، تین ماہ کا سفر کر کےجنوری 1026ءمیں سومنات کے ارد گرد لڑائی کرکے سب کو شکست دی۔ہندوؤں نے بُت کو نہ توڑنے پرپیسہ پیش کیا مگر سلطان نے بُت فروش بننا پسند نہیں کیااور توڑنےکامقصد سومنات کا مندر نہیں بلکہ ہندوؤں کااجتماعی سیکرٹ سیل تباہ کرناتھا۔
نمبر8۔ 1027(418ھ) میں جاٹوں کےخلاف کشتیوں پر لڑائی میں جاٹوں کو شکست دی۔آخری جنگ بیماری کے دوران 1029 (420ھ)میں ایرانی علاقے رے میں ہوئی جس میں رے کےحاکم آل بویہ کو شکست دی اور1030ء میں 59سال کی عمرمیں غزنی میں وفات پائی۔
نمبر9۔ 1974میں غزنوی میں زلزلہ کی وجہ سے سلطان محمود غزنوی کامزار ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوا،قبر بھی پھٹ گئی،تابوت بھی ظاہرہوگیاجس میں سلطان کا جسدخاکی رکھ کردفن کیاگیاتھا۔ تابوت بدلنےکےلئے جب کھولا گیاتوسلطان محمود غزنوی اسی حالت میں تھاجیسے ابھی اسےتازہ تازہ تابوت میں رکھ کردفن کیاگیاہو۔