مجاہدینِ غزوہ ہند ( قسط نمبر 11)

In اسلام
January 17, 2021

محمد بن قاسمؒ
مسلمان فوج دیبل سے نکل کر موجودہ حیدرآباد کی جانب بڑھی۔جب محمد بن قاسمؒ نے دیبل کا قلعہ فتح کیا عوام الناس کے ساتھ انکا سلوک مثالی تھا۔چنانچہ یہ بات سندھ کے مظلوم عوام میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ یہاں ایک بہت نیک حکمران پہنچا ہے۔محمد بن قاسمؒ اور ان کے سپا ہیوں کردار،ان کے اپنے راجاؤں،فوجیوں اور دیگر حملہ آوروں سے یکسر مختلف تھا کہ صدیوں سے یہاں ظلم و ستم کرتے چلے آرہے تھے۔قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی شاندار روایات کو قائم رکھتے ہوئے یہاں بھی مسلمان فوج نے یتیموں،بیواؤں،مساکین اور دیگر نہتے عوام کے ساتھ انتہائی نرمی اور رحم دلی کا معاملہ رکھا۔
نہ تو کسی کا مال لوٹا،نہ کسی کی عزت پر حملہ کیا گیا اور نہ ہی کسی کی نا حق جان لی گئی۔اس حسن سلوک کا نتیجہ یہ نکلاکہ ہزاروں کی تعداد میں مقامی آبادی بھی محمد بن قاسمؒ کی فوج میں شامل ہونے لگی۔مقامی افراد ان کی فوج کیلئے رہنما،گائیڈ اور جاسوسی کے فرائض بھی انجام دینے لگے۔انہی کے ذریعے محمد بن قاسمؒ کو راجہ داہر کی تمام حرکات و سکنات کے بارے میں پیشگی اطلاع ملتی رہی۔
اندرون سندھ پیش قدمی کے دوران جگہ جگہ مسلمان فوج کی ہندو لشکروں سے جھڑپیں ہوتی رہیں،مگر مسلمانوں کی پیش قدمی جاری رھی۔موجودہ نواب شاہ کے نزدیک بلآخر راجہ داہر بذاتِ خود ایک بہت بڑی فوج کے ساتھ ایک فیصلہ کن جنگ کیلئے میدان میں اترا۔راجہ داہر اور اس کے حلیف ہندو راجوں کا لشکر لگ بھگ ایک لاکھ سپاہ پر مشتعمل تھا کہ جن میں ہاتھیوں کی ایک بڑی تعداد تھی۔خود راجہ داہر بھی ایک بڑے ہاتھی پر سوار تھا۔ایک لاکھ ہندوؤں کے مقابلے پر محمد بن قاسمؒ کی فوج لگ بھگ بارہ ہزار سپاہ پر مشتعمل تھی
یہ ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کی خلاف سب سے بڑی مزاحمت تھی۔یہاں تک کہ راجہ داہر کی رانیاں بھی اپنے قلعے کی دیوار پر بیٹھ کر اس جنگ میں شامل تھیں۔ ( جاری ہے)

/ Published posts: 14

میرا نام محمد حسنین ھے۔میں نے اردو لکھنے کا کورس کیا ھے۔میں اس پلیٹ فارم پر بھی ا چھی طرح کام کروں گا

Facebook