رب کو ڈھونڈنا ہے؟ رب کی تلاش میں نکلیں گے؟
کہاں؟ کہاں ملے گا ؟
کہاں ملنے جانا پڑے گا ؟
اگر وہ ”وہاں“ ہے ، تو مطلب ” یہاں “ نہیں ہے؟
وہ ہے ۔ ۔ ۔ وہی تو ہر جگہ ہے۔۔۔
نکلنا ہے تو اپنی تلاش کے سفر پہ نکلیں۔۔
خود سے آشنائی کروائیں اپنی ۔
جس دن اپنی تلاش کی منزل پہ پہنچ جائیں گے اُس دن آپ کو پتا چل جاۓ گا کہ رب تو ہمارے اندر ہی تھا ۔ ہماری روح میں ۔ ۔ ۔ ہمارے دل میں ہی تھا .بس ہم ہی خود سے دور تھے ۔یہی اُصول ہے میرے رب کے کرم کا کہ وہ پہلے انسان کو اُس کی ذات سے آشنا کرواتا ہے پھر اپنی ذات سے۔ خود سے آشنائی ہوجاۓ تو رَب سے آشنائی ہو کر ہی رہتی ہے۔۔ہم ساری عمر خود سے نا آشنا ہو کر باقی ہر چیز کی تلاش میں بھٹکتے ہیں ، رَب کی ذات کو باہر کی دُنیا سے ڈھونڈنا شروع کرتے ہیں جبکہ رَب کی آشنائی ہماری اپنی ذات کے باطن سے شروع ہوتی ہے اور کائنات کے ظاہر و باطن تک لے جاتی ہے.
اللّٰہ جب کسی انسان کو اپنی ذات سے آشنا کروانا چاہتا ہے تو اُسے گزارتا ہے۔۔۔ اُسے اُس کی ذات کی تنہایوں سے،، نفس کی ملامتوں سے ، اُس کے دل کی ویرانیوں سے۔۔۔انھی ویرانیوں میں پھر اپنی شناسائی کی رنگینیاں دکھاتا ہے اپنے بندے کو ۔۔۔انھی ٹھوکروں میں اُس کا ہاتھ تھام کر گرنے سے بچا لیتا ہے۔۔۔تب انسان کا دل کہتا ہے کہ ہاں۔۔!! کوئی ہے …. کوئی ہے جو مجھے میرا حوش دلانے کے لیے ان ٹھوکروں سے گزارتا ہے تاکہ وہ مجھے تھام سکے۔۔۔ہے کوئی ایسا جو تنہایئوں میں بھی ہم قدم ہے میرے۔۔۔ ہے ایسی ذات جو اندر کی ویرانیوں سے، اندھیروں سے دوچار کرتا ہے تاکہ اسکی چمک کی جلوے دیکھ سکے اُس کابندہ۔۔۔وہی ذات ہے یہ جو بندے کو اُس کے اپنے وجود سے گزار کے خود پہ لاتا ہے۔جب رَب کی طرف سے دیا ہوا زندگی کا راز مل جاۓ تو رَب مل جاتا ہے۔خود شناسائی کے اس سفر پہ چلتے چلتے انسان آخر اُس مقام تک پہنچ ہی جاتا ہے جہاں اُسے معلوم ہوتا ہے کہ دُور میں تھا اپنے رب سے۔۔۔ وہ تو ہمیشہ ہی قریب رہا میرے۔۔ میں بس رَب کہ مقام کو نہیں سمجھ پایا ، میں بس کبھی یہ نہ جان پایا کہ دل کا مَکین ہی میرا اللّٰہ ہے ۔ میں یہ نہ جان پایا کہ یہ دل۔۔۔جہاں اللّٰہ رہتا ہے ، اسے پاک کرنا کتنا ضروری تھا۔۔۔
شاید یہی ایک حجاب ہوتا ہے رَب اور بندے کے درمیان کہ بندہ اُس ذات کو باہر ڈھونڈنا شروع کردیتا ہے جو ہر جگہ ہے۔۔۔ہر جگہ! یہ نہیں سمجھتا کہ جو ہر جگہ موجود ہو اُسے ڈھونڈا نہیں جاتا۔۔۔ محسوس کِیا جاتا ہے ۔۔ ڈھونڈا تو اُن چیزوں کو جاتا ہے جو کھوئی ہوں۔۔۔ جیسے ”انسان کا اپنا آپ“ ۔۔ لیکن یہی ایک راستہ ہے رَب سے شناساٸ کا۔ اپنی تلاش ہی رَب کی تلاش ہے۔ جب اپنی تلاش میں انسان کامیاب ہوجاۓ تو سمجھ آنے لگتا ہے کہ وہ رَب تو میرے اندر بھی ہے اور میرے باہر بھی،، ظاہر بھی وہ ہے اور باطن بھی،، دل کی دھڑکن بھی وہ ہے اور سانسوں کی آہٹ بھی،، جینے کی وجہ بھی وہ ہے اور وہ ہی موت کا شوق بھی،،بس وہ ہی وہ ہے۔۔۔ہم ہی دور ہیں۔۔خود سے بھی،،، اُس سے بھی
از قلم: دُعا لُقمان