دھرتی ماں کی فریاد تحریر : انور ملک گزشتہ سال کے اختتام پر پاکستان کے دو بڑے کاروباری گروپوں کے بچوں کی شادی زبانِ زدِ عام رہیں- “جلال سنز” اور” ماسٹر ٹائلز ” کے اس بندھن پر تقریباً دو ارب روپے خرچ ہوئے -مختلف تقریبات کے انعقاد کے لیے روزبلانکا کنٹری کلب کی 120 ایام پر محیط خدمات کے عوض پندرہ کروڑ روپے ادا کیے گئے -تزین و آرائش , آتشبازی , رسمِ حنابندی اور ایونٹ مینجمنٹ کی مد میں سات کروڑ روپے ادا کئے گئے اس دوران راحت فتح علی خان اور عاطف اسلم جیسے گلوکاروں کی سروں اور دھنوں پر مبنی ایک ایک رات کی پرفارمنس پر پچاس پچاس لاکھ کی پیشگی ادائیگی کے ساتھ ساتھ شب بھر پانچ پانچ ہزار والےکرنسی نوٹوں کی بارش برسائی جاتی رہی -ولیمہ کی تقریب کو منفرد بنانے کے لیے انواع و اقسام کےلذیز کھانوں اور مشروبات کے ساتھ ساتھ ترکی سے جمناسٹس منگوائی گئیں جو اپنے فنکارانہ کرتب دکھا کر دل و نظر کو سیراب کرتیں رہیں -ان پرکیف لمحات کوکیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے والے فوٹوگرافر کوایک کروڑ روپے ادا کیے گئے-اشرافیہ کی اس شادی کی بازگشت ابھی تھمی نہیں تھی کہ منڈی بہاالدین کے ایک چھوٹے سے قصبے میں اٹلی پلٹ محنت کش بھائیوں نے اپنے چھوٹے بھائی کی شادی پر بے دریغ دولت لٹا کر دنیا کو ورطہءِحیرت میں ڈال دیا -ہیلی کاپٹر کے زریعے کروڑوں روپے ہوا میں یوں اڑاۓ گئےکہ گلیاں بھی کرنسی نوٹوں سے سفید ہو گئیں -دولت کی ناقدری کا اس سے بڑا مظاہرہ کیا ہو گا کہ دولہا میاں کو بھابھی کی طرف سے تحفہ میں ملنے والے جوتوں کی قیمت نوے لاکھ روپے تھی- ان جوتوں کو بنانے کے لیے چالیس تولے سونے کا استعمال کیا گیا دولت کی نمودونمائش اور ناقدری و ناشکری پر دھرتی ماں زبان حال سے رو روکر سوال کرتی ہے -جس ملک کے چھے کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچےکچی جھگیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوں -جس ملک کے دو کروڑ افراد کھلے آسمان تلے بےسروساماں اور بے گھر ہوں -جس ملک کا ہر دسواں شخص خوراک کی کمی کا شکار ہو-جس ملک میں بیالیس لاکھ بچوں کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا ہو-جس ملک میں دو لاکھ اڑتالیس ہزار بچے غیرمتوازن غذا کے باعث محض ایک سال میں اپنی ماؤں کی گود اجاڑ کر ابدی نیند سوگئے ہوں-جس ملک کے دو کروڑ چوراسی لاکھ مستقبل کے معمار سکول سے دور ہوں-جس ملک کے چھیاسٹھ لاکھ پچاس ہزار نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں اور آنکھوں میں خواب سجائے روزگار کی تلاش میں مارے مارے سڑکوں پر پھر رہے ہوں -جس ملک میں تیس لاکھ جبری مشقت کرنے والے لوگ بے یارو مددگار غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں -جس ملک کی تیس لاکھ بیٹیوں کے سر شادی کے انتظار میں چاندی کی سفید چادر تان کے جھک گئے ہوں جس ملک میں ایک کروڑ سےزیادہ لوگ صاف پانی کی عدم دستیابی کے باعث ہیپاٹایٹس کا شکار ہوں-جس ملک میں سالانہ ایک لاکھ پانچ ہزار افراد کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہو جایئں-جس ملک کے قریہ قریہ میں زندگی کی لاش بے گور و کفن پڑی ہو…………وہ ملک ……وہ مٹی ……. وہ دھرتی-وہ ماں …..تم سے…….. فریاد کناں ہے-کاش…….. تم نے مرا دکھ سنا ہوتا کاش… تم نے مرا درد سمجھا ہوتا — کاش ………….ہائے کاش ……
زندگی کے بارے میں اقوال زندگی یادوں کا سیلاب ہے جو فراموشی کے سمندر میں بہہ رہا ہے۔ جہاں تک موت کا تعلق ہے ، یہ ثابت شدہ حقیقت ہے۔ باشعور ذہن اس خیال کا احترام کرنے کے قابل ہے ، چاہے وہ اس پر یقین نہ کرے۔ انسان میں منفی نفس وہ ہے جو غصہ کرتا ہے ، انتقام لیتا ہے اور سزا دیتا ہے ، جبکہ انسان کی اصل فطرت پاکیزگی ، نفس کی برداشت ، سکون اور دوسروں کے ساتھ رواداری ہے۔ ہر لمحے کو اس طرح جیو جیسے یہ آپ کی زندگی کا آخری لمحہ ہو ، ایمان سے جیو ، امید سے جیو ، محبت سے جیو ، جدوجہد سے جیو اور زندگی کی قدر کرو۔ چہرہ دماغ کا آئینہ ہوتا ہے اور آنکھیں بات نہیں کرتی اور یہ دل کے رازوں کو بھی تسلیم کرتی ہے۔ سردی موسم گرما کا آغاز ہے ، اندھیرے روشنی کی ابتدا ہے ، تناؤ سکون کا آغاز ہے ، اور ناکامی کامیابی کا آغاز ہے۔ کچھوے خرگوش کے مقابلے میں دستک دینے میں زیادہ تجربہ کار ہوتے ہیں۔جب آپ نہیں جانتے کہ کیا کرنا ہے ، آپ کا اصل کام شروع ہو جاتا ہے ، اور جب آپ نہیں جانتے کہ کس راستے پر جانا ہے ، آپ کا حقیقی سفر شروع ہوتا ہے۔ ایسے وقت ہوتے ہیں جب ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ اختتام ہے اور پھر دریافت کریں کہ یہ آغاز ہے ، اور ایسے دروازے ہیں جنہیں ہم بند محسوس کرتے ہیں اور پھر دریافت کرتے ہیں کہ وہ اصل دروازہ ہیں زندگی میں آ گے بڑھنے کا- اپنے دشمنوں کو معاف کر دیں اپنے دشمنوں کو معاف کر دو ، لیکن ان کے نام کبھی مت بھولنا۔ آدمی ہر چیز کا ذمہ دار ہے ، جب تک وہ چاہتا ہے۔ اچھی تقریر اچھے عمل کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ۔ مصیبت کا اپنا پہلو ہے پر ہر مصیبت کے بعد آسانی ہے مگر جب جبکےآپ اس مصیبت سے کچھ سیکھتے ہیں اور سوچ دو دھاری تلوار ہے۔ زندگی کے خوبصورت مشورے زندگی کا سب سے خوبصورت مشورہ ہر لمحے زندگی کے ذائقے سے لطف اٹھائیں۔ تنقید کے جواب میں اپنی توانائی ضائع نہ کریں۔ جو آپ کے پاس ہے اسے رکھیں۔ فن کا ذائقہ حاصل کرنے کے لیے کچھ وقت فنکاروں کی گیلریوں میں گزاریں۔ نامکمل چیزوں کے برعکس اپنے دماغ کو کامل اچھی چیزوں پر مرکوز رکھیں۔ ان لوگوں کے ساتھ ناقابل فراموش لمحات گزاریں جن سے آپ محبت کرتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ کل آپ کی کامیابی آپ کے کام پر منحصر ہے۔ کوئی ایسی چیز نہ لکھیں جسے آپ نہیں چاہتے کہ کوئی اور پڑھے ، یہاں تک کہ آپ کی ڈائری میں بھی۔ قدرتی بنیں اور دکھاوا نہ کریں۔ ۔ اپنے خوابوں کی پیروی کریں اور ان کی مسلسل پیروی کریں۔ وقت کی کمی سے معذرت نہ کریں آپ جو کام کرتے ہیں اس کے بارے میں پرجوش رہیں۔ اپنے بچوں یا پوتے پوتیوں کو اپنے پہلے نام سے پکارنے کی اجازت نہ دیں۔ غیر سنجیدہ بیانات استعمال کرنے سے گریز کریں جیسے میں سوچتا ہوں ، میرے خیال میں ، اور شاید ، یہ بیانات آپ کو اپنے بارے میں غیر یقینی ظاہر کریں گے یا جس کے بارے میں آپ بات کر رہے ہیں۔ جب آپ ٹریفک میں پھنس جائیں تو اپنے سامنے والی کاروں کو اپنے آگے چلنے دیں ، پھر چلیں۔ تمباکو نوشی سے دور رہیں۔ دوسروں کے سامنے اپنے بچوں پر تنقید نہ کریں چاہے کچھ بھی ہو۔ اپنے بچوں کی طرف سے کسی غلط رویے کو معاف نہ کریں اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔ اپنی بیوی کو احتیاط سے منتخب کریں کیونکہ وہ آپ کی 90٪ خوشی یا غم کی ذمہ دار ہے۔ کمپیوٹر پر جلدی ٹائپ کرنے کا طریقہ سیکھیں۔ اگر آپ دوسرے لوگوں کے غصے اور گھبراہٹ کے سامنے سکون سے کام لیں گے تو وہ شرم محسوس کریں گے ، اور بعد میں آپسے معافی بھی مانگ سکتے ہیں۔ کوشش کریں کے فون آپکی زندگی کے اہم لمحات میں خلل نہ ڈالیں۔ کیونکہ فون آپ کی سہولت کے لیے بنایا گیا تھا ، کال کرنے والے کی سہولت کے لیے نہیں۔ لوگوں سے یہ توقع نہ کریں کہ وہ آپ کو بہترین مشورے دیں گے سستے اوزارکبھی نہ خریدیں۔ زندگی اور دوستوں کے بارے میں اقوال زندگی اور دوستوں کے بارے میں اقوال دوستی ایک چھتری کی طرح ہوتی ہے ، جتنی بارش ہوتی ہے اتنی ہی اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوستی ایک خواب اور ہستی ہے جو ضمیر میں رہتی ہے۔ کچھ ایسے ہیں جن کی موجودگی آپ کی زندگی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو خالی نشان ہیں ، لہذا ایک سچے دوست کا انتخاب کریں ، اور جعلی دوستی سے بچو۔ ہر دوست کو یہ سمجھنے پر مجبور کریں کہ وہ آپ کا قریب ترین اور آپ کا پسندیدہ ہے۔ دھوکہ دہی کے بغیر یہ کام کریں ۔ دوست شفاف روحیں ہیں جن کے ساتھ ہمارا مضبوط رشتہ ہے ، ان کی قربت دیرپا سکون اور خوشی کا ذریعہ ہے۔ جب ماضی کو دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے ، اور آپ کو ڈر لگتا ہے کہ مستقبل میں کیا ہوگا ، اپنی طرف دیکھو ، اور آپ کا بہترین دوست آپ کی مدد کے لیے موجود ہوگا۔ دوستی ایک باغ ہے اور اس کا جواب بھائی چارہ ہے اور اس کا امرت تعاون ہے۔ ایک سچا دوست وہ ہوتا ہے جو آپ کے بارے میں اچھا سوچتا ہے ، اور اگر آپ اس کے حق میں غلطی کرتے ہیں تو وہ آپ کے لیے عذر ڈھونڈتا ہے اور اپنے آپ سے کہتا ہے ، شاید اس کا مطلب یہ نہیں تھا۔ ایک سچا دوست تلاش کرنا مشکل ، چھوڑنا مشکل اور بھولنا ناممکن ہے۔ خوش رہو دوستو ، اتنا خوش ہونے کے لیے کافی وجہ ہے کے آپکا دوست آپکے ساتھ ہے ۔ ۔ سچی دوستی آنکھ اور ہاتھ کے رشتے کی طرح ہوتی ہے اگر ہاتھ درد کرتا ہے تو آنکھ سے آنسو گرتے ہیں اور اگر آنکھ سے آنسو گرتے ہیں تو ہاتھ اسے
ہم لوگ سیاست کو ایک گالی سمجھتے ہیں- لیکن اصل میں سیاست اک مقدس فریضہ ہے- جب بھی سیاست کا ذکر چھڑ جائے ہماری ناقص عقل میں بے اعتباری اور کڑواہٹ بھر جاتی ہیں- اس میں یادہ قصور ہماری سوچ کا بھی نہیں بلکہ ان نامہ اعمال کا ہے جو سیاسی لوگ سرانجام دے رہے ہیں- ایک کے بعد ایک ایسی تبابی کا مرکز بنا راہ کہ ہماری عقل دھنگ رہ گئی- رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: “بنی اسرائیل کے امور سیاست ( یعنی اجتماعی نظم اور عدل اجتماعی کے معاملات ) انبیا کرام سرانجام دیتے تھے، جب ایک نبی کا وصال ہو جاتا، تو دوسرا نبی ان کی جگہ لے لیتا، مگر اب یہ امر قطعی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آے گا، سو تم میں خلفاء ہوں گے- اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیاست شعار نبوت ہے،ایک مقدس سماجی فریضہ ہے اور اس کے بغیر معاشرے کے دینی، سیاسی، معاشی، اور اخلاقی نظم میں توازن قائم نہیں رہتا اور معاشرہ افراتفری اور انار کی یعنی لاقانونیت کا شکار ہو جاتا ہے-اسی کو آج کل کے عرف میں جنگل کا قانون یا دہشت و فساد کے راج سے تعبیر کیا جاتا ہے- لیکن ہما ری بدقسمتی یہ ہے کہ سیاست کے شعبے میں پے در پے ایسے عناصر آئے کہ سیاست گالی بن گئی، سیاست کو بدعنوانی، مفاد پرستی، اقربا پروروی اور دھوکھے بازی کے ہم معنی سمجھا جانے لگا- آج کل جب کوئی کسی سے کہتا ہے کہ مجھ سے سیاست نہ کرو، تو اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ مجھے دھوکھا نہ دو، مجھ سے جھوٹ نہ بولو، مجھ سے ہوشیاری نہ کرو- یہ ہمارے معشرتی زوال اور اخلاقی تنزل کی انتہا ہے- اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ حال ہی میں ہمارے مذہبی سیاست دان بھی آپے سے باہر ہو گۓ اور دین کی حساسسیت اور نزاکتوں کو خیرباد کہہ دیا- اسی وجہ سے آج ہماری سوچیں بھی سیاست کے لئے اتنی غیرمتزل کا شکار ہیں- بلکہ اگر یہ کہے کہ ہماری بولیاں اور لغتیں بھی اتنی بانجھ ہو گئی ہیں کہ اپنا بندہ دو چار قتل کے بعد بھی مارا جاۓ تو شہید کہلاتا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں کی جاری کردہ شہادت کی اسناد مقتولین کے کفن یا تابوت میں رکھی جائے گی اور اس پر ان کی جزاوسزا کے فیصلے ہوں گے- کس نے دولت کی خاطر جان دی، کس کو اپنی شجاعت کے جوہر دکھانے تھے، اور کس نے فی سبیل الله جان دی اس کا فیصلہ صرف الله کے اختیار میں ہیں- کوئی بھی سیاسی کارکن اپنی طاقت کے بل بوتے پر جنت کا ٹکٹ نہیں خرید سکتا- الله خیانت کرنے والی نگاہوں اور دلوں میں چھپے رازوں کو خوب جانتا ہے-ہم زیادہ سے زیادہ ظاہر حال پر بات کر سکتے ہیں، لیکن اس میں بھی الله تعالئ کی حدود کی پاسداری ہونا لازمی ہیں ہمارے ہاں سب سے زیادہ اس بات پر بحث کی جاتی ہے کہ ہم نی قانون کی پاسداری کرنی ہے حکمران کا ہر حکم بجا لانا ہے کافی حد تک یہ بات بھی درست ہے لیکن ہم کس قانون کی بات کرتے ہیں وہ قانون جو پیسوں کا محتاج ہے یا پھر وہ قانون جو طاقت والوں کا بنایا ہوا ہے- ہمارے فوجی بھائی جنہوں نے ہر حال میں قانون کا خیال رکھنا ہوتا ہیں کس پر گولی چلانی ہے اور کس پر نہیں چلانی، یہ بات جانتے ہوے بھی کے سامنے والا بھی مسلمان بھائی ہی ہے انہیں حکم کی تعمیل کرنی پڑتی ہے ماتحت نے تو اپنے افسران کا حکم ماننا ہی ہوتا ہے لیکن کبھی انہون نے یہ جاننے کی کوسش کی ہیں کے ہمارا اسلام ہمیں کیا حکم دیتا ہے- حضرت علئؒ بیان کرتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے مقابلے کے لئے ایک لشکربھیجا اور ان پر ایک شخص کو امیر بنایا، اس امیر نے آگ جلائی اور سپاہیوں سے کہا کہ اس آگ میں داخل ہوجاؤکچھ لوگ اطاعت امیر کو لازم سمجھتے ہوۓ اس کے لئے تیار ہو گنے، لیکن کچھ دوسرے سپاہیوں نے کہا کہ آگ سے بچنے کے لئے تو ہم نے اسلام قبول کیا ہے- اس واقعے کو واپسی پر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا گیا تو آپ ﷺ نے ان مجاہدیں کو امیر کے حکم پر آگ میں داخل ہونے کے لئے تیار ہو گنے تھے، فرمایا اگر خدانخواستہ آگ میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک آگ میں جلتے رہتے دوسرے جنہوں نے آگ میں داخل ہونے سے انکار کیا تھا ان کی تحسین کی ور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی اسیے امر میں جس سے خالق کی نافرمانی ہو تو مخلوق کو اس کا حکم ماننا لازم نہیں ہے، اطاعت امیر صرف اسی کی لازم ہے جو شعریت میں جائز ہو- لیکن جس قانون میں سیلمان تاثیر جیسے سیاست دان کے قتل کو شہادت جیسا پاک رتبہ دیا جاتا ہو پھر وہاں قانون کے پاسدار بھی چور لٹیرے ہی پیدا ہوتے ہیں-ہمارے پاس حکمران بہت ہیں، سیاست دان بھی بہت ہیں، جماعتوں کے رہنما بھی بیسیوں ہیں، چوہدری، وڈیرے بھی وافر مقدار میں ہیں اور اگر یہ ہی حالات رہیے تو عنقریب ریاست اور حکومت کا نام محض تعارف اور برکت کے لئے رہ جائے گا- مہوش کنول مشی