سیاست اک مقدس فریضہ

In اسلام
July 14, 2021
سیاست اک مقدس فریضہ

ہم لوگ سیاست کو ایک گالی سمجھتے ہیں- لیکن اصل میں سیاست اک مقدس فریضہ ہے- جب بھی سیاست کا ذکر چھڑ جائے ہماری ناقص عقل میں بے اعتباری اور کڑواہٹ بھر جاتی ہیں- اس میں یادہ قصور ہماری سوچ کا بھی نہیں بلکہ ان نامہ اعمال کا ہے جو سیاسی لوگ سرانجام دے رہے ہیں- ایک کے بعد ایک ایسی تبابی کا مرکز بنا راہ کہ ہماری عقل دھنگ رہ گئی-

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: “بنی اسرائیل کے امور سیاست ( یعنی اجتماعی نظم اور عدل اجتماعی کے معاملات ) انبیا کرام سرانجام دیتے تھے، جب ایک نبی کا وصال ہو جاتا، تو دوسرا نبی ان کی جگہ لے لیتا، مگر اب یہ امر قطعی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آے گا، سو تم میں خلفاء ہوں گے-

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیاست شعار نبوت ہے،ایک مقدس سماجی فریضہ ہے اور اس کے بغیر معاشرے کے دینی، سیاسی، معاشی، اور اخلاقی نظم میں توازن قائم نہیں رہتا اور معاشرہ افراتفری اور انار کی یعنی لاقانونیت کا شکار ہو جاتا ہے-اسی کو آج کل کے عرف میں جنگل کا قانون یا دہشت و فساد کے راج سے تعبیر کیا جاتا ہے- لیکن ہما ری بدقسمتی یہ ہے کہ سیاست کے شعبے میں پے در پے ایسے عناصر آئے کہ سیاست گالی بن گئی، سیاست کو بدعنوانی، مفاد پرستی، اقربا پروروی اور دھوکھے بازی کے ہم معنی سمجھا جانے لگا-

آج کل جب کوئی کسی سے کہتا ہے کہ مجھ سے سیاست نہ کرو، تو اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ مجھے دھوکھا نہ دو، مجھ سے جھوٹ نہ بولو، مجھ سے ہوشیاری نہ کرو- یہ ہمارے معشرتی زوال اور اخلاقی تنزل کی انتہا ہے- اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ حال ہی میں ہمارے مذہبی سیاست دان بھی آپے سے باہر ہو گۓ اور دین کی حساسسیت اور نزاکتوں کو خیرباد کہہ دیا- اسی وجہ سے آج ہماری سوچیں بھی سیاست کے لئے اتنی غیرمتزل کا شکار ہیں- بلکہ اگر یہ کہے کہ ہماری بولیاں اور لغتیں بھی اتنی بانجھ ہو گئی ہیں کہ اپنا بندہ دو چار قتل کے بعد بھی مارا جاۓ تو شہید کہلاتا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں کی جاری کردہ شہادت کی اسناد مقتولین کے کفن یا تابوت میں رکھی جائے گی اور اس پر ان کی جزاوسزا کے فیصلے ہوں گے- کس نے دولت کی خاطر جان دی، کس کو اپنی شجاعت کے جوہر دکھانے تھے، اور کس نے فی سبیل الله جان دی اس کا فیصلہ صرف الله کے اختیار میں ہیں- کوئی بھی سیاسی کارکن اپنی طاقت کے بل بوتے پر جنت کا ٹکٹ نہیں خرید سکتا-

الله خیانت کرنے والی نگاہوں اور دلوں میں چھپے رازوں کو خوب جانتا ہے-ہم زیادہ سے زیادہ ظاہر حال پر بات کر سکتے ہیں، لیکن اس میں بھی الله تعالئ کی حدود کی پاسداری ہونا لازمی ہیں

ہمارے ہاں سب سے زیادہ اس بات پر بحث کی جاتی ہے کہ ہم نی قانون کی پاسداری کرنی ہے حکمران کا ہر حکم بجا لانا ہے کافی حد تک یہ بات بھی درست ہے لیکن ہم کس قانون کی بات کرتے ہیں وہ قانون جو پیسوں کا محتاج ہے یا پھر وہ قانون جو طاقت والوں کا بنایا ہوا ہے- ہمارے فوجی بھائی جنہوں نے ہر حال میں قانون کا خیال رکھنا ہوتا ہیں کس پر گولی چلانی ہے اور کس پر نہیں چلانی، یہ بات جانتے ہوے بھی کے سامنے والا بھی مسلمان بھائی ہی ہے انہیں حکم کی تعمیل کرنی پڑتی ہے ماتحت نے تو اپنے افسران کا حکم ماننا ہی ہوتا ہے لیکن کبھی انہون نے یہ جاننے کی کوسش کی ہیں کے ہمارا اسلام ہمیں کیا حکم دیتا ہے-

حضرت علئؒ بیان کرتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے مقابلے کے لئے ایک لشکربھیجا اور ان پر ایک شخص کو امیر بنایا، اس امیر نے آگ جلائی اور سپاہیوں سے کہا کہ اس آگ میں داخل ہوجاؤکچھ لوگ اطاعت امیر کو لازم سمجھتے ہوۓ اس کے لئے تیار ہو گنے، لیکن کچھ دوسرے سپاہیوں نے کہا کہ آگ سے بچنے کے لئے تو ہم نے اسلام قبول کیا ہے- اس واقعے کو واپسی پر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا گیا تو آپ ﷺ نے ان مجاہدیں کو امیر کے حکم پر آگ میں داخل ہونے کے لئے تیار ہو گنے تھے، فرمایا اگر خدانخواستہ آگ میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک آگ میں جلتے رہتے دوسرے جنہوں نے آگ میں داخل ہونے سے انکار کیا تھا ان کی تحسین کی ور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی اسیے امر میں جس سے خالق کی نافرمانی ہو تو مخلوق کو اس کا حکم ماننا لازم نہیں ہے، اطاعت امیر صرف اسی کی لازم ہے جو شعریت میں جائز ہو-

لیکن جس قانون میں سیلمان تاثیر جیسے سیاست دان کے قتل کو شہادت جیسا پاک رتبہ دیا جاتا ہو پھر وہاں قانون کے پاسدار بھی چور لٹیرے ہی پیدا ہوتے ہیں-ہمارے پاس حکمران بہت ہیں، سیاست دان بھی بہت ہیں، جماعتوں کے رہنما بھی بیسیوں ہیں، چوہدری، وڈیرے بھی وافر مقدار میں ہیں اور اگر یہ ہی حالات رہیے تو عنقریب ریاست اور حکومت کا نام محض تعارف اور برکت کے لئے رہ جائے گا-

مہوش کنول مشی