Home > Articles posted by محمد اسامہ
FEATURE
on Jan 20, 2021

أن لا يغفر أن يشرك به و يغفر ما دون ذلك لمين يشاء اس آیت کے مفہوم کو سامنے رکھ کر کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ہر گناہ کو بخش دوں گا لیکن شرک کو نہیں بخشوں گا۔ کوئی چوری کرے، ڈاکا ڈالے، شراب نوشی کرے، زنا کاری کرے لیکن پھر اللّٰہ کے سامنے سچے دل سے معافی بھی مانگ لے تو اللّٰہ معاف کردے گا۔ حدیث قدسی ہے کہ اے آدم کے بیٹے اگر تو اتنے گناہ کرلے کہ زمین و آسمان کا خلا بھر دے لیکن ایک بار میرے در پر آکے سچے دل سے معافی مانگ لے تو میں معاف کردوں گا اور جتلاؤں گا بھی نہیں۔ ایک طرف پوری کائنات کا خدا ہے جو عام معافی کا اعلان کررہا ہے اور دوسری طرف اس کی مخلوق ہے مٹی اور گندے پانی سے بنی ہوئی وہ کسی کو معاف کرنے پر تیار نہیں باوجود یہ کہ وہ بندہ سچے دل سے معافی بھی مانگ رہا ہوتا ہے کیا یہ لوگ نعوذباللہ خدا سے زیادہ بڑے ہوگئے کہ خدا کی بات سے اپنی بات کو زیادہ برتر سمجھتے ہیں۔ اور ہم پھر اسی پر بس نہیں کرتے ہم لوگ اس کی غلطی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں تاکہ وہ بندہ سر اٹھا کر جینے کے قابل ہی نہ بچے اور اکثر اوقات یہ کام کوئی اور نہیں بلکہ آپ کے اپنے ہی کرتے ہیں اس لیے تو شاعر نے کہا کہ اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں اللّٰہ تعالیٰ ستار ہے اور ستاری کو پسند کرتا ہے آج آپ کسی کے عیبوں پر پردہ نہیں ڈالیں گے تو یاد رکھیں کل قیامت کے دن ہوسکتا ہے کہ اللّٰہ بھی آپ کے عیبوں پر پردہ نہ ڈالے۔ پھر وہاں کی رسوائی برداشت نہ کرسکو گے۔ معاف کرنا سیکھو، عیبوں پر پردہ ڈالنا سیکھو، رحم کرنا سیکھو تاکہ تم پر بھی رحم کیا جاۓ۔ آپ کا ایک اچھا فیصلہ کسی زندگی بنا بھی سکتا ہے اور بگاڑ بھی سکتا ہے۔

FEATURE
on Jan 5, 2021

ہم مسلمان ہیں اور مسلمان دنیا میں سب سے زیادہ پر امن قوم ہے اس کی مثالیں ہمارے آباؤ اجداد کی زندگی میں جابجا نظر آتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے آج مسلمان میں وہ صبر و تحمل ختم ہوگیا ہے وجہ قرآن و سنت سے دوری ہے۔ ہم بس نام کے مسلمان رہ گئے ہیں عمل نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ دوسری اقوام کی شدت پسندی کو دیکھ کر ہم بھی شدت پسند بنتے جارہے ہیں، ہم کہتے ہیں وہ ایسا کررہے ہیں تو ہم کیوں پیچھے رہیں۔ مجھے یہ تمہید باندھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ آج سے کچھ دن پہلے خیبرپختونخواہ کے ضلع کرک میں حکومت مندر کی توسیع کرنا چاہتی تھی اس پر وہاں ہنگامہ برپا ہوا اور لوگوں نے مندر میں توڑ پھوڑ کی۔ یہ بات کسی صورت قابل تعریف نہیں ہے کیونکہ اسلام اقلیتوں کی اور ان کے عبادت خانوں کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی لشکر کو جنگ کے لیے روانہ فرمایا کرتے تھے تو اس کو نصیحت فرمایا کرتے کہ بچوں، بوڑھوں، عورتوں، غلاموں اور عبادت خانوں کو کچھ نہ کہا جائے۔ یہ تو جنگ کے دوران کا حکم تھا جس میں کسی چیز کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا لیکن ہم بغیر جنگ کے ایسا کررہے ہیں۔ میری نظر میں ہم شاید شدت پسندی کی طرف مائل حکومت کے حالیہ کچھ نامناسب اقدامات کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ تھی کہ حکومت نے سرکاری پیسے سے سکھوں کے لیے کئی ایکڑز پر مشتمل ایک گردوارہ بنادیا جبکہ اس پر کئی ارب خرچ کیے گئے اس کے بلمقابل میری معلومات کے مطابق چند ایک لاکھ میں ہماری مسلمان حکومت نے ایک بھی مسجد نہیں بنائی۔ اور پھر حکومت ملک کے دل یعنی اسلام آباد میں ڈیڑھ یا دو سو ہندوؤں کے لیے پاکستان کے سب سے بڑے مندر کو بنانے جارہی تھی اس پر بھی عوام کا ردعمل آیا اور پھر حکومت اس منصوبے سے پیچھے ہٹ گئی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جب سکھر اور اس کے گردونواح میں سترہ مساجد غیر قانونی قرار دے کر شہید کردی گئیں تب اس پر حکومت نے کوئی ردعمل نہیں دیا نہ کوئی علیحدہ زمین دینے کا کہا گیا۔ اس پر ایک مرد مولانا راشد محمود سومرو اٹھا اور کرینوں کے سامنے کھڑے ہوکر کہا کہ یہ کرینیں میرے سینے سے گزر کر جائیں گی۔ پھر اس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عدالت سے سرخرو ہوا۔ کیا اب پاکستان میں مساجد کو بچانے کے لیے عدالتوں میں جانا پڑے گا؟ ان واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت صرف اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر کاربند ہے اور اس کو مسلمانوں سے شاید کوئی سروکار نہیں ہے۔ اسلامی ریاست کے اندر اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی تعمیر صرف اقلیتوں کی کمیونٹی کرتی ہے ناکہ حکومتی سطح پر اس طرح کے کام کیے جاتے ہیں۔ خلافت راشدہ کا زمانہ ہمارے سامنے ہے جو تقریباً ستائیس سال بنتے ہیں، اس سارے ٹائم میں کوئی ایک بھی اقلیتی عبادت خانہ حکومتی سطح پر تعمیر نہیں کیا گیا۔ آخر میں پھر یہی کہوں گا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے بہرحال اقلیتوں کے عبادت خانوں کا تحفظ کیا جانا چاہیے اس وقت تک جب تک کہ وہ شرپسندی نہ کریں۔ اگر وہ معبد کسی بھی طرح کی تخریب کاری یا پھر ریاست کے خلاف سرگرمیوں کا مرکز بن جائے تب مسجد ضرار کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

FEATURE
on Jan 2, 2021

جمعیت علماء اسلام کی تاریخ پاکستان سے بھی پرانی ہے۔ اس کی بنیاد 1945 میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے ڈالی جنہوں نے پاکستان بننے کے بعد مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان میں سب سے پہلے ملک کا جھنڈا لہرایا۔ پاکستان بننے کے بعد جمعیت علمائے اسلام کے بھی دو حصے ہوگئے ایک جمعیت علمائے اسلام ہند بن گئی اور دوسری جمعیت علمائے اسلام پاکستان بن گئی۔ یوں مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے یہ جماعت 1971 کے الیکشن میں اس وقت کے صوبہ سرحد موجودہ خیبرپختونخواہ کی حکمران جماعت بن گئی اور مولانا مفتی محمود وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ مولانا مفتی محمود کی وفات کے بعد انکے بیٹے مولانا فضل الرحمان جمعیت کے امیر منتخب ہوئے۔ تب سے یہ جماعت دو حصوں میں تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے۔ پہلے جمعیت علمائے اسلام کو توڑ کر جمعیت علمائے اسلام نظریاتی گروپ وجود میں آیا اس پر بڑا شور و غوغا بلند ہوا کہ اب جمعیت کا وجود باقی نہیں رہے گا لیکن آج اس جمعیت نظریاتی کا کوئی نام و نشان نہیں۔ پھر جب اہل حکم لوگوں نے دیکھا کہ جمعیت تو روز بروز بڑھتی اور ترقی کرتی جارہی ہے تب پھر منصوبہ سازوں نے دوبارہ گیم کھیلی اور جمعیت علمائے اسلام سے مولانا سمیع الحق کو توڑ کر جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق گروپ کے نام سے ایک اور جمعیت کی تخلیق ہوئی۔ حالانکہ مولانا سمیع الحق شہید مولانا فضل الرحمان کے استاد کی حیثیت رکھتے تھے لیکن عوام نے سیاسی لحاظ سے مولانا فضل الرحمان کو مولانا سمیع الحق پر ترجیح دی اور مولانا سمیع الحق کی جماعت بھی عوام پر کوئی تاثر پیدا کرنے یکسر ناکام رہی۔ اور اب ایک بار پھر جمعیت علمائے اسلام میں بغاوت ہوئی اور چار اہم رہنما جمعیت کو چھوڑ گئے اور الگ سے اپنی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا۔ لہٰذا ایسی بغاوت کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا اور ووٹ پھر بھی مولانا فضل الرحمان کے نام کا پڑنا ہے۔ لہٰذا اربابِ اختیار لوگوں کو چاہیے کہ وہ جماعتوں کو توڑنے اور جوڑنے کا سلسلہ ختم کریں اور تمام سٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر ملک کے بارے میں سوچیں، ڈوبتی معیشت پر نظر ڈالیں اور عوام کا سہارا بنیں۔

FEATURE
on Dec 28, 2020

ایک بوڑھا آدمی جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل میں شریک تھا، وہ اچانک آنکھ کی بینائی سے محروم ہوگیا۔ لوگوں نے سبب پوچھا تو اس نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آستین چڑھائے ہوئے ہیں۔ ہاتھ میں تلوار ہے اور آپ کے سامنے چمڑے کا فرش ہے۔ جس پر کسی کو قتل کیا جاتا ہے اور قاتلینِ حسین میں سے دس کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام نے مجھے ڈانٹا اور خونِ حسین رضی اللہ عنہ کی سلائی میری آنکھوں میں ڈالی، صبح میں بیدار ہوا تو آنکھوں کی بینائی ختم ہوچکی تھی۔ ایک شخص کہ جس نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر کو اپنے گھوڑے کی گردن میں لٹکایا تھا، اُس کے بعد اس کو دیکھا گیا کہ اس کا منہ تارکول یعنی لک کی طرح سیاہ ہوگیا ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ تم تو بہت خوبصورت شکل و صورت کے آدمی تھے۔ تمہارے چہرے کو کیا ہوا؟ اس نے کہا: جس دن سے میں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کی بے حرمتی کی ہے اس کے بعد سے اب تک جب کبھی ذرا سا بھی سوتا ہوں تو دو آدمی مجھے بازؤں سے پکڑتے ہیں اور مجھے دھکتی آگ پر لے جاتے ہیں جس کی وجہ سے میری شکل و صورت اب سیاہ ہوگئی ہے۔ اس شخص کے بارے میں آتا ہے کہ وہ بدبخت چند دن بعد اسی حالت میں مرگیا۔ایک اور شخص جس نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو پانی نہ پینے دیا تھا، اس پر اللّٰہ تعالی نے ایسا عذاب مسلط کیا کہ اس کی پیاس نہ بجھتی تھی۔ کتنا ہی پانی پی لیتا پھر بھی پیاس سے تڑپتا رہتا تھا،یہاں تک کہ ایک دن اس کا پیٹ پھٹا اور مردار ہوگیا۔ عمرہ بن حجاج زبیدی پیاس اور گرمی کے باعث بیہوش ہوجاتا اور آخر کار ذبح کیا گیا۔ ملعون شمر بن ذی الجوشن، جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں سب سے زیادہ شقی اور سخت تھا، اس کو قتل کرکے لاش کتوں کے آگے ڈال دی گئی۔ آئیے عزم کریں! ہم بھی شہسوار اور جنت کے نوجوانوں کے سردار حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مبارک زندگی سے سبق سیکھیں گے اور ان کی طرح دین کی خاطر دنیا کی ہر شئے فدا کردیں گے، اگرچہ اس کی خاطر ہمیں جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ انشاءاللہ