دھرتی ماں کی فریاد

In شوبز
August 19, 2021
دھرتی ماں کی فریاد

دھرتی ماں کی فریاد
تحریر : انور ملک

گزشتہ سال کے اختتام پر پاکستان کے دو بڑے کاروباری گروپوں کے بچوں کی شادی زبانِ زدِ عام رہیں- “جلال سنز” اور” ماسٹر ٹائلز ” کے اس بندھن پر تقریباً دو ارب روپے خرچ ہوئے -مختلف تقریبات کے انعقاد کے لیے روزبلانکا کنٹری کلب کی 120 ایام پر محیط خدمات کے عوض پندرہ کروڑ روپے ادا کیے گئے -تزین و آرائش , آتشبازی , رسمِ حنابندی اور ایونٹ مینجمنٹ کی مد میں سات کروڑ روپے ادا کئے گئے

اس دوران راحت فتح علی خان اور عاطف اسلم جیسے گلوکاروں کی سروں اور دھنوں پر مبنی ایک ایک رات کی پرفارمنس پر پچاس پچاس لاکھ کی پیشگی ادائیگی کے ساتھ ساتھ شب بھر پانچ پانچ ہزار والےکرنسی نوٹوں کی بارش برسائی جاتی رہی -ولیمہ کی تقریب کو منفرد بنانے کے لیے انواع و اقسام کےلذیز کھانوں اور مشروبات کے ساتھ ساتھ ترکی سے جمناسٹس منگوائی گئیں جو اپنے فنکارانہ کرتب دکھا کر دل و نظر کو سیراب کرتیں رہیں -ان پرکیف لمحات کوکیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے والے فوٹوگرافر کوایک کروڑ روپے ادا کیے گئے-اشرافیہ کی اس شادی کی بازگشت ابھی تھمی نہیں تھی کہ منڈی بہاالدین کے ایک چھوٹے سے قصبے میں اٹلی پلٹ محنت کش بھائیوں نے اپنے چھوٹے بھائی کی شادی پر بے دریغ دولت لٹا کر دنیا کو ورطہءِحیرت میں ڈال دیا -ہیلی کاپٹر کے زریعے کروڑوں روپے ہوا میں یوں اڑاۓ گئےکہ گلیاں بھی کرنسی نوٹوں سے سفید ہو گئیں -دولت کی ناقدری کا اس سے بڑا مظاہرہ کیا ہو گا کہ دولہا میاں کو بھابھی کی طرف سے تحفہ میں ملنے والے جوتوں کی قیمت نوے لاکھ روپے تھی- ان جوتوں کو بنانے کے لیے چالیس تولے سونے کا استعمال کیا گیا

دولت کی نمودونمائش اور ناقدری و ناشکری پر دھرتی ماں زبان حال سے رو روکر سوال کرتی ہے -جس ملک کے چھے کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچےکچی جھگیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوں -جس ملک کے دو کروڑ افراد کھلے آسمان تلے بےسروساماں اور بے گھر ہوں -جس ملک کا ہر دسواں شخص خوراک کی کمی کا شکار ہو-جس ملک میں بیالیس لاکھ بچوں کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا ہو-جس ملک میں دو لاکھ اڑتالیس ہزار بچے غیرمتوازن غذا کے باعث محض ایک سال میں اپنی ماؤں کی گود اجاڑ کر ابدی نیند سوگئے ہوں-جس ملک کے دو کروڑ چوراسی لاکھ مستقبل کے معمار سکول سے دور ہوں-جس ملک کے چھیاسٹھ لاکھ پچاس ہزار نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں اور آنکھوں میں خواب سجائے روزگار کی تلاش میں مارے مارے سڑکوں پر پھر رہے ہوں -جس ملک میں تیس لاکھ جبری مشقت کرنے والے لوگ بے یارو مددگار غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں -جس ملک کی تیس لاکھ بیٹیوں کے سر شادی کے انتظار میں چاندی کی سفید چادر تان کے جھک گئے ہوں

جس ملک میں ایک کروڑ سےزیادہ لوگ صاف پانی کی عدم دستیابی کے باعث ہیپاٹایٹس کا شکار ہوں-جس ملک میں سالانہ ایک لاکھ پانچ ہزار افراد کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہو جایئں-جس ملک کے قریہ قریہ میں زندگی کی لاش بے گور و کفن پڑی ہو…………وہ ملک ……وہ مٹی ……. وہ دھرتی-وہ ماں …..تم سے…….. فریاد کناں ہے-کاش…….. تم نے مرا دکھ سنا ہوتا کاش… تم نے مرا درد سمجھا ہوتا — کاش ………….ہائے کاش ……