حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ولادت نبی علیہ السلام کی ولادت کے 6سال بعد 570 عیسوی میں ہوئی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا نام عثمان اور والد کا نام عفان تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا تعلق کس خاندان بنو امیہ سے تھا ۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے والد صاحب خاندان قریش کے امیر آدمی تھے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار مکہ کے ان چند افراد میں ہوتا تھا جو لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو غنی (مالدار) کا کا لقب دیا کیوں کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام کے لیے اپنا بہت سارا مال قربان کر دیا تھا ۔
دور جاہلیت میں بھی حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے کبھی بھی بت پرستی اور شراب نوشی نہیں کی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے وقت کے دانشور اور معتبر شخص تھے لوگ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی بہت عزت کرتے تھے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار عرب کے مشہور تاجروں میں ہوتا تھا ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ساتھ گہری دوستی تھی ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلے ہی اسلام قبول کرچکے تھے ۔ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو اسلام کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کرلی اور ایمان لے آیا۔ اسلام لانے کے بعد دوسرے مسلمانوں کی طرح آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان کو بھی رسیوں سے باندھ کر کوڑوں سے پیٹا جاتا تھا لیکن انہوں نے اسلام نہ چھوڑا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے بھی قریش مکہ کے ظلم سے تنگ آ کر حبشہ کی طرف ہجرت کی۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا لقب ذوالنورین ہے کیوں کہ نبی اکرم صلی وسلم کے دو بیٹیوں کے نکاح حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوئی تھی اس لئے اس کا لقب ذوالنورین یعنی دو نور والا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا شمار مکہ کے مالدار تاجر میں ہوتا تھا۔ مدینہ منورہ میں میٹھے پانی کا کنواں تھا جو کہ ایک یہودی کی ملکیت تھا یہودی مہنگے داموں میں مسلمانوں کو پانی فروخت کرتا تھا جس سے مسلمان بہت پریشان تھے حضرت عثمان رضی اللہ نے بیس ہزار درہم کے عوض خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔غزوۃ تبوک کے موقع پر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فوج کے ایک تہائی اخراجات خود برداشت کیے اس کے علاوہ ایک ہزار اونٹ 70 گھوڑے اور سامان رسد کے لیے ایک ہزار دینار بھی پیش کی ۔ایک دفعہ مدینہ میں قحط پڑ گیا شہر میں کہیں بھی غلہ نہیں مل رہا تھا حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کا تجارت قافلہ مدینہ منورہ پہنچا جس میں ایک ہزار اونٹ غلہ سے لدے ہوئے تھے ۔ جب غلہ کی تاجر کو علم ہوا تو وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ سے غلہ خریدنے پہنچے اور دوگنا منافع پیش کی۔لیکن آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے سارا غلہ مدینہ کے غریبوں مسکینوں میں تقسیم کردیا ۔
24 ہجری میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ شہادت کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ منتخب ہوئے اور تقریبا 21 سال تک مسلمانوں کے خلیفہ رہے ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں لیبیا تیونس اور الجزائر کے علاقے فتح ہوئے اور اسلامی سلطنت کابل تک پھیل گئی۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ سلطنت کے تمام فیصلے مجلس شوریٰ کے ذریعے کرتے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کی آس پاس کی زمین خرید کر اس کی توسیع کی ۔ انہوں نے سڑکوں اور شہروں میں سرائے اور مہمان خانے بنوائے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے جگہ جگہ کنویں کھدواۓ تاکہ مسافروں کو بآسانی میسر اسکے۔
ایک یہودی عبداللہ بن سبا نے اسلام کے خلاف سازش کرکے مسلمانوں کو دو گروپوں میں تقسیم کردیا ایک مخالف گروہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر جانبداری اور اقربا پروری کا الزام لگا کر بغاوت کر دی اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کا محاصرہ کر لیا ۔ حضرت علی رضی اللہ نے اپنے دونوں بیٹوں کو آپ کی حفاظت پر مامور کر دیا۔ مسلمان حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ سے اجازت مانگتے رہے کہ باغیوں کے ساتھ جنگ کی جائے لیکن آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اجازت نہیں دی کہ ناحق مسلمانوں کا خون بہے گا ۔ باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ پر حملہ کر دیا اس وقت قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے ۔ باغیوں نے خنجر مار کر آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو لہولہان کر دیا ۔ جمعہ کے دن 18 ذوالحجہ 35 ہجری کو شہادت پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئےان للہ وانا الیہ راجعون