مسلمان مرد ہندو عورتوں کو پیار کے فریب میں پھنسا کر ان سے شادیاں کرتے ہیں ، ان کا مذہب زبردستی تبدیل کرکے ان کو مسلمان بناتے ہیں، اور اسی طریقے سے ہندوستان میں ہندوؤں کی آبادی کو کم کرکے مسلمانوں کو غالب قوم کی صورت میں ابھار کر ہندوستان پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔اس سازشی نظریہ کو ہندو انتہا پسند مختلف ناموں سے پکارتے ہیں جیسے کہ لو جہاد ، جہادعشق، رومیو جہاد یا محبت جہاد۔یہ وہ سازشی نظریہ ہے جس کا ہندو انتہا پسندوں نے ہمیشہ سے مسمانوں کے خلاف استعمال کیا ہے لیکن جس شدت سے موجودہ دور میں اس کا استعمال ہو رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔اس ضمن میں کچھ دلچسپ حقائق ہے جس کا جاننا ضروری ہے ۔
ایک مشہور ہندو اخبار کے مطابق مسلمان مرد ہندوؤں کی بیٹیوں اور بہنوں کو ان بچوں کو کھلانے پلانے اور بڑا کرنے میں استعمال کرتے ہیں کہ جن کو وہ پاکستان کے مدرسوں میں بھجوا کر ہندوستان ہی کے خلاف یہ لوگ جنگ کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ مسلمانوں اور ہندوؤں میں ہمیشہ سے اختلافات رہی ہے لیکن نفرت اور تنگ نظری کا یہ عالم شاید ہی کبھی دیکھا گیاہو ۔ تاریخ کے اوراق کو ٹٹول کر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بظاہر تو یہ سازشی نظریہ قریبی عشروں میں پروان چڑھا ہے،مگر اصل میں یہ نفرتوں کے بیج ۱۹۲۰ کے عشرے کے شرعات کے چند سالوں میں اتر پردیش میں بوئے گئےتھے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اس خطہ زمین پر انگریزوں کا راج ہوا کرتا تھا۔
دور جدید میں اس نظریے نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف تب کھینچی جب ۲۰۰۹ میں کریلہ کی عدالت نے ایک مسلمان اور ہندو جوڑے کی شادی کو اسں نظریہ کی بنیاد پر منسوخ کر دیا تھا۔ لیکن پھر جب آگے تحقیقات کی گئی تو جہاد عشق یا رومیو جہاد کے وجود کی کوئی بھی ختمی ثبوت مہیّا نہ کی جا سکی جس کے بعد جسٹس ایم ساسیدہارن نمبیار نے اس تفتیش کو بند کر دیا تھا۔ اس سازشی نظریے نے ۲۰۰ ملین مسلمان آبادی اور ان سے جڑی ہوئی ہندو آبادی کیلئے اذیت ناک شکل تب لی جب ۲۰۱۴کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اترپردیش میں اس سازشی نظریےکو استعمال کرتے ہوئے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اور تب سے یہ اس پارٹی کے منشور کا ایک بنیادی حصہ رہا ہے۔
اور اب جبکہ پورے ہندوستان پر اس ہندو انتہا پسند جماعت کی حکومت ہے تو ان کی ساری حکومتی پالیسیاں مسلمانوں کے خلاف ہی ہیں اور جس میں کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں رہی۔ اور اپنے منشور پر عمل کرتے ہوئے اروناچل پردیش ، اڈیشہ ، مدھیہ پردیش اتر پردیش ، چھتیس گڑھ ، گجرات اور ہماچل پردیش میں لوجہاد کے خلاف باقاعدہ قوانین منظور کرائے جارہے ہیں ۔ان قوانین کے مطابقااس نظریہ کے ضمن میں بین المذہبی شادی پر زیادہ سے زیادہ سزا دس سال اور ایک لاکھ کا جرمانہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اور بغیر کسی وارنٹ کے پولیس ذرہ سے شک کی بنیاد پر بھی کسی کو بھی اٹھا سکتی ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی ڈیماکریسی کا دعوی کرنے والا بھارت ہندوتوا پر عمل پیرا ایک ہندو انتہا پسند ٹولی کے قبضے میں آیا ہوا ہے۔ ہندوستان کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ موجودہ خکمران ٹولی مسلمانوں کے خلاف ہے ہندوستان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عام ہندوؤں سے لے کر تمام مذاہب والے لوگوں کے خلاف ہیں۔ ذات پات کی تقسیم کا یہ عالم ہے کہ ہندوستان میں تمام ہندو بھی ایک برابر نہیں ہے ۔ان میں بھی کوئی نچلی درجے کا ہے تو کوئی اعلی درجے کا ہے کوئی اچھوت ہے تو کوئی براہمن۔اور آج پورا ہندوستان ایک چھوٹے ہندو انتہا پسند ٹولی کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہیں۔