Skip to content

سلطان رکن الدین بیبرس(1228-1277) (ابو الفتح) ایک عظیم اور حیرت انگیز جنگی صلاحیتوں کا حامل کمانڈر

ظہور اسلام کے بعد اسلامی تاریخ عروج پر پہنچتے ہوۓ جب 13 صدی میں داخل ہوئی تو مسلمان ملت پر اس زیادہ تکلیف دہ وقت پہلے کبھی نا آیا تھا. کہ وہ صدی تھی جب تمام مسلمان ملت تباہی کے داہنے پر. پہنچ چکی تھی اور یہ لگتا تھا کہ( نعوذبااللہ) اس دین کا نام تک مٹا دیا جاتا.

اس صدی میں جتنے مسلمان (بشمول بچے بوڑھے) شہید کیے گیے اس پہلے گزرے ہوے تمام دور یا اسکے بعد انے والی صدیوں میں نا کیے گیے.. پچھلے تقریباً سوا سو سال سے مسلمان صلیبیوں کا مقابلہ کرتے آرہے تھے. پورے یورپ کی اجتماعی طاقت انکی فوجی، سیاسی اور معاشی طاقت بھی مسلمانو کو اتنا نقصان نہیں پہنچا رہی تھیں کہ امت مسلمہ کا وجود خطرے میں پڑے…. بڑے بڑے مسلم سلطان نورالدین زنگی، صلاح الدین ایوبی امت مسلمہ کہ حفاظت کے لیے صلیبیوں کی یلغار سامنے ڈٹے رہے.مسلمان سلطنتوں کی سرحدیں ایک طرف منظم فورس رکھنے والی چین اور دوسری طرف ایک بڑا فوجی اتحاد رکھنے والے یورپی سلطنتوں کی سرحدوں سے ٹکرا رہی تھی..

مگر ان افواج اور سلطنتوں میں ایک اور فوج طاقت کا اضافہ ہونے والا ایک ایسا ایلیمنٹ جس طرح کو پہلے کبھی دیکھا نا کسی کو اندازہ تھا کہ یہ طوفان جو اٹھے کا یہ دنیا کے کیا حشر برپا کرکے گا. 1206 میں چین کے قریب. منگولیا کے علاقے میں ایک خان تخت پر بیٹھتا ہے جسکا نام تیموجن تھاءاور دنیا اسکو “چنگیز خان” کے نام سے جانتی ہے. اس وقت دنیا کہ کوئی بھی تہذیب چین، مغرب یا مسلمان کوئی بھی اس خطرے کا اندازہ نہیں کرسکتی تھا جو منگول سے اٹھ رہا تھا. چند ہی سالوں میں منگولیا کے سب زار سے بھی کر لاکھوں کے لشکر نے تقریباً پوری دنیا کو میں اہنی لپیٹ میں لے لیا. اور جو قیامت برپا کی وہ اس سے قبل دنیا نے نا دیکھی. پوری چینی تہذیب تباہ ہوئی پوری تمام اسلامی تہذیب تباہ ہوئی اور مغرب پہنچ گی..منگولوں کی آمد اتنی غیر متوازن تھی کی دنیا کہ تین بڑی تہذیبئں انکا مقابلہ نا. کرسکیں اور انکے آگے گھٹنے ٹیک دیے.اس خطرناک ترین صورتحال میں اللہ تعالیٰ نے کس طرح مسلمانو کی. مدد کی اور مسلمان تہذیب کس طرح دوبارہ اپنے پاوں پر کھڑ ہو سکی اور کیا مزاحمت تھی جو مسلمانوں کی صفوں میں پیدا ہوئی اور حیرت انگیز داستان ہے.

اس وقت خلافت عباسیہ صرف بغداد اوراس آس پاس تک محدود تھی اور بے اختیار تھی. بڑے بڑے سلطان ملک الدین سلجوق، صلاح الدین ایوبی. نور الدین زنگی جیسے بہادر سلطان دنیا سے جاچکے تھے انکی اولادیں ضرور منسب پر بیٹھی ہوئی تھیں مگر اس قابل نا تھیں کہ اہنے بزرگوں کا بوجھ اٹھا سکتیں.. وہ آپس میں ہی بٹے ہوئے آپس میں دست گریباں تھے… اس دور کہ مسلمان دانشور اور علماء بھی زوال پذیر تھےاس دور میں بغداد جیسے علم و ہنر کے مرکز جو دنیا قیادت کرتا آرہا تھا اب وہاں یہ بحث ہونے لگی کے سور بکری بن کر آجاے تو کھایا جاسکتا ہے کہ نہیں.

اس وقت منگول قہر الہی بن کر. منگولیا سے نکل کر دنیا میں پھیل جاتے ہیں اس سے قبل تاریخ میں اور تہذیب میں کبھی منگولوں کا. نام بھی نہیں سنا گیا ہوگا… اور جب یہ آندھی منگولیا سے نکل کر دنیا پر ٹوٹ پڑتی ہے اور آگ خون کا سیلاب بہانا شروع کرتی ہے بڑی بڑی تہزیب تباہ ہوجاتی ہیں کروڑوں لوگو کا خون بہایا جاتا اور کئی سو سال کا تاریخی ورثہ ھو مسلمانو نے اپنے خون پسینے سے بنایا سب تباہ ہو جاتا ہے۔ (جاری یے)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *