“مجھے ہاتھ مت لگائیں۔ کتنی بار کہوں آپ سے کہ مت تنگ کیا کریں پھر بھی سمجھ نہیں آتی”۔ صائمہ جو اپنے شوہر پر بجلی بن کے برس رہی تھی صرف اس لیے کہ عثمان نے اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا تھا لیکن صائمہ کو یہ بات گورا نہ گزری اور وہ چیخنے لگی۔” کیا ہو گیا ہے صائمہ کیوں ناراض ہو رہی ہو صرف ہاتھ ہی تو پکڑا ہے اس میں اتنا ناراص ہونے والی کونسی بات ہے”۔ عثمان صائمہ کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے بولا ۔ جبکہ وہ جانتا تھا کہ صائمہ کا موڈ نہیں ٹھیک ہو گا۔ خیر یہ تو اب روز کا ہی معمول بنتا جا رہا تھا۔ لیکن ایک بات جو عثمان کو اندر ہی اندر کھاے جا رہی تھی وہ صائمہ کا دن بدن بگڑتا رویہ تھا۔
عثمان اور صائمہ کی ارینج میرج ہوئی تھی لیکن وہ دونوں اپنی شادی شدہ زندگی سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔ ان کی شادی کو تقریباً تین سال ہونے کو آے تھے۔ اللہ پاک نے انہیں پیارے سے بیٹے سے نوازا تھا جس کا نام انہوں نے ابراہیم رکھا جوبالکل اپنے دادا جیسا تھا جو اب اس دنیا میں نہیں تھے۔ عثمان اپنی زندگی سے بہت خوش تھا ۔ وہ روز ہی صائمہ اور ابراہیم کے لیے آفس سے آتے ہوے کچھ کھانے کو لے کے آتا ۔ حالانکہ صائمہ ایک اچھی کک تھی اور عثمان کی تمام پسندیدہ ڈشز بنانا جانتی تھی۔ جہاں بھی جاتے وہ سب ایک جیسی ڈریسنگ کرتے ۔ ان کو دیکھ کر پیار کرنے والے رشک کرتے اور جلنے والے جل بجھ کر رہ جاتے ۔ پھر اچانک ایسا ہوا کہ صائمہ کا رویہ بدلنے لگا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر منہ بنانا اور غصہ کرنے لگی۔ شروع شروع میں عثمان نے اسے تھکاوٹ اور کام کے بوجھ کی وجہ سمجھا لیکن آہستہ آہستہ یہ چڑچڑا پن زیادہ ہو گیا۔ پہلے تو ایک منٹ بھی خاموش نہیں بیٹھ سکتی تھی ۔ روز ہی کوئی نہ کوئی نئی فرمائش ہوتی تھی اور اب بولنے پر بھی نہیں جواب دیتی اور پاس جاو تو کاٹنے کو دوڑتی تھی۔ بچے کے اوپر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دے رہی آخر صائمہ کے دماغ میں چل کیا رہا ہے۔ نوبت یہاں تک آ گئی تھی کہ عثمان کا پیار سے دیکھنا بھی صائمہ کو چبھنے لگا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے.
“یہ کیا کیا تم نے اپنے بال کیوں کاٹ لیے کتنی بری لگ رہی ہو کچھ اندازا بھی ہے.” عثمان صائمہ کو مسلسل ڈانٹ رہا تھا جبکہ وہ بیڈ پہ بیٹھی کسی سوچ میں گم تھی. صائمہ جو اپنے ہی ہاتھوں اپنے پورے سر کو گنجا کر چکی تھی اور اس کو اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں تھی۔ عثمان کے اس طرح چلانے پر وہ بولی:” مجھے نہیں پتہ میں نے نہیں کیا یہ۔ ” ” کیا مطلب تمہیں نہیں پتہ تم نے نہیں کیا تو اور کس نے کیا.” عثمان نے غصے میں پوچھا لیکن صائمہ تب تک دوسرے کمرے میں جا چکی تھی۔ گھر کے حالات مزید بگڑتے جا رہے تھے صائمہ آہستہ آہستہ پاگلوں جیسی حرکتیں کرنے لگی تھی. عثمان نے اسے سائیکائٹریسٹ کے پاس لے کے جانے کا فیصلہ کر لیا.
صائمہ کے کچھ ٹیسٹ کرواے گیے جس سے یہ بات سامنے آئی جس کو سن کر عثمان کے پاوں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی. رپورٹ کے مطابق صائمہ ٢مہینوں سے ڈرگز کا استعمال کر رہی تھی جس کا اثر اس کے دماغ پہ ہو رہا تھا۔ بات بات پہ غصہ کرنا ، گھر کے کاموں میں دلچسپی نہ لینا یہاں تک کہ ابراہیم کو بھی نظر انداز کرنا، عثمان سے جھگڑا کرنا اور پاس نا آنے دینا ، بالوں کو کاٹنا وغیرہ یہ سب اس ڈدگز کا ہی نتیجہ تھا۔ اب عثمان خود پاگل ہونے والا تھا ۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ صائمہ نے کب،کیسے اور کس سے ڈرگز لینا شروع کر دی۔۔ یہی سوچ۔ سوچ کہ اس کا سر درد سے پھٹ رہا تھا کہ اچانک گھر کی بیل بجی ۔ اٹھ کر دیکھا تو سامنے صائمہ کی بڑی بہن فوزیہ کھڑی مسکرا رہی تھی۔
“اسلام و علیکم! آپی آپ۔۔۔؟ آئیےنا”۔ عثمان نے ادبأ اندر آنے کو کہا۔
“واعلیکم السلام! کیسے ہو عثمان۔”۔ فوزیہ نے جواب دیا۔
“جی میں ٹھیک ہوں بس صائمہ کی حالت نہیں ٹھیک۔ ” آپ کیسی ہیں؟ گھر میں سب کیسے ہیں۔ ”
“گھر میں بھی سب ٹھیک ہیں۔ تم بتاو کیا ہوا صائمہ کو ؟ کہاں ہے وہ؟ ” فوزیہ نے پورے گھر کو نظروں سے ہی کھنگھالتے ہوے پوچھا۔
“جی وہ تو ہسپتال ہے ڈاکٹر نے کچھ دن کے ٹریٹمنٹ کے لیے اسے ایڈمٹ کرنے کو بولا تھا تو وہ تب سے وہیں ہے۔۔ کسی کو خوامخوا پریشانی نہ ہو اس لیے میں نے کسی کو نہیں بتایا۔ ” عثمان نے وضاحت دیتے ہوے کہا۔
” نہیں پریشای کیسی ۔۔ خیر اب میں آ گئی ہوں نا تو میں اس کی جگہ لے لیتی ہوں” “جی، کیا مطلب” فوزیہ کی بات پہ عثمان نے ایک دم حیران ہو کر پوچھا۔” میرا مطلب ہے کہ تمہیں اور ابراہیم کو بھی تو سنبھالنے کے لیے کوئی چاہیے نا اس لیے میں ہیاں رک جاتی ہوں جب تک صائمہ ٹھیک ہو کر گھر واپس نہیں آ جاتی۔ کیوں تمیں کوئی اعتراض تو نہیں۔؟” فوزیہ نے آنکھیں نکالتے ہوے پوچھا۔
“نہیں نہیں اعتراض کیسے آپ کا اپنا گھر ہے جب مرضی رہیے” عثمان نے سر سے اتارتے ہوے کہا جبکہ وہ جانتا تھا کہ اب یہ آسانی سے سر سے نہیں اترے گی۔
جاری ہے۔۔۔