Skip to content

جب بھی میں اکیلی ہو تی ہوں

جب بھی میں اکیلی ہوتی ہوں
نزہت قریشی
جب بھی میں اکیلی ہوتی ہوں
سوچتی ہی رہتی ہوں
کچھ خوابوں کی باتیں
کچھ چہروں کی یادیں
اور جب آہٹ آتی ہے کہیں سے
دیکھ کے میں چونک سی جاتی ہوں
پیچھے یہ کون لپک رہا ہے میرے
ارے یہ تو میرا ہی سایا ہے
اور میں دھیرے سے ہنس دیتی ہوں
جب بھی میں اکیلی ہوتی ہوں
ہر انسان اپنی سوچوں میں گُم اور مگن رہتا ہے ۔ زندگی کے مسائل ہمیں اتنی اجازت نہیں دیتے کہ ہم سوچتے رہیں اپنی خوشگوار یادوں میں کھوئے رہیں یہ ہمیں کھینچ کر واپس ان تلخ حقیقت کی دنیا میں لے آتے ہیں ۔ لیکن یہ سوچیں تو غم کے طوفانوں اور مُصیبتوں کے سمندر میں بھی ایک جزیرے کی طرح نمودار ہوتی ہیں اور بس انسان کو ایک پناہ گاہ مل جاتی ہے۔ ان عذابوں اور حوادث کے تھپیڑوں سے بچنے کے لیے ہم اس جزیرے پر پناہ لیتے ہیں۔
انسان کسی بھی گروہ سے تعلق رکھتا ہو، اسے دکھوں سے الگ نہیں، یہ الگ بات ہے کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دکھوں سے واسطہ پڑتا ہے اور زندگی اسے پہاڑ نظر آنے لگتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مصائب و آلام سے چھٹکارا حاصل کر ے مگر وہ اس طرح گلے کا ہار بن جاتی ہیں کہ روایتی کمبل کی طرح چھوڑنے کا نام نہیں لیتیں۔ گلے کا ہار بننے والے ان دکھوں کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا، کسی بھی پہلو سے وہ زندگی کے لئے عذاب بن سکتی ہیں۔ مسلسل ناکامیاں اور حوصلہ شکن محرومیاں انہیں جنم دیتی ہیں اور غم کے اندھیرے غاروں میں جاگراتی ہیں۔ اقتصادی بدحالی، معاشرتی ناہمواری، عدم مساوات، ظلم و ستم، ناانصافی اور ریاستی جبر بھی اس کے اسباب میں سے ہیں، جس سے انسان کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے اور جسمانی قوت اس طرح متاثر ہوتی ہے کہ وہ صدیوں کا بیمار نظر آنے لگتا ہے۔ اس دکھ بھری دنیا کے سمندر میں تنکے کی طرح بہنے کے باوجود انسان ہاتھ پاؤں ضرور مارتا ہے اور یہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ دکھوں سے نجات پالے اور غموں کے بھنور سے باہر آ جائے۔

دُنیا میں کوئی انسان بھی ایسا نہیں ہے جس کی زندگی میں کوئی دُکھ ، کوئی غم ، کوئی پریشانی یا کوئی فکر نہ ہو ۔ اب تو چھوٹے بچوں سے بھی بات کریں۔ وہ اپنی پریشانی میں ہوتے ہیں اور جب یہ بات اُن سے سُننے کو ملتی ہے کہ اتنی زیادہ ٹینشنز ہیں تو حیرت بھی ہوتی ہے اور ہنسی بھی آتی ہے کہ ان کی بھی ٹینشنز ہیں۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ ایسا ہی ہے۔ کیونکہ اس کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہیں۔ ابھی ان کی کھیلنے کودنے کی عمر ہوتی ہے اور ہم ان پر کتابوں کا بوجھ لاد کر سکول ( جیل ) بھیج دیتے ہیں ۔ ان کے وزن سے بھاری کتابوں کا وزن جو وہ لاد کر پھرتے ہیں اور پھر ہم سوچتے ہیں کہ بھلا ان کو بھی کوئی ٹینشن ہے؟
ہم دُنیا کی ہر ٹینشن سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دن رات اس ٹینشن میں رہتے ہیں کہ آخر ان ٹینشنز کو کیسے دُور کریں ۔ ہے نا یہ ٹینشن کی بات؟
میں بھی یہی سوچتی رہتی ہوں
جب بھی میں اکیلی ہوتی ہوں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *