ایک بازار سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ ایک شخص کی کسی جج صاحب سے ان بن ہو گئی تھی اپنے غرور جج صاحب مسلسل دھمکیاں دے رہے تھے جج صاحب شاید یہ بھول گئے تھے کہ انہوں نے لوگوں کو انصاف دینا ہے نہ کہ کسی کے ساتھ ناانصافی کرنا نہیں وہ بھی ایک ہجوم کے سامنے ہمارے یہاں نظام شاید سب سے بڑا مسئلہ ہے چاہے وہ سیاسی ہو عدالتیں ہو یا کوئی اور خاص طور پر عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد بہت کم ہو چکا ہے ایک اور واقعہ پیش آیا اخبار میں یہ خبر شہ سرخیوں میں لگی ہوئی تھی کہ سات دن کی قید کی سزا کاٹنے والے کو دس سال بعد رہائی ملی بعد ازاں جج صاحب نے عدالتی سست روی پر معافی بھی مانگی میں کوئی قانون دان تو نہیں لیکن اس نظام سے خوب واقف ہو اس نظام کے ڈسے ہوئے لوگ اپنا قانون بناتے ہیں قانون بھی ایسا کہ جس میں صرف دو ہی شکیے سے ہوتی ہیں “مارو یہ مرو ”
قانون کے دوسرے پر بات کریں تو یہ ہے ہماری پولیس تقریبا نصف سے زیادہ پولیس اہلکار وی آئی پیز کی چوکیداری پر مامور ہیں اس کو اگر یوں کہا جائے کہ یہ لوگ فقط عوام کہ ٹیکس کا پیسہ ضائع کر رہے ہیں ہیں تو بے جانہ ہوگا کیونکہ عوام کے ٹیکس کے پیسے سے تنخواہ لینے والے وقت پر عالی شان محلوں میں رہنے والوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں غرض یہ ہے کہ ان کے اپنے پہرے دار موجود ہوتے ہیں باقی کے معززین قانون کے نفاذ اور عوامی جان و مال کے تحفظ کے علاوہ تمام کام کرتے ہیں جن کا ان سے کوئی ناتا نہیں ہیں لفظ رشوت تو ان کا تکیہ کلام بن چکا ہے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں پولیس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کے دوران تقریب میں وزیراعظم کا بیان خوش آئند تھا جب وہ فرماتے تھے کہ کسی بھی معاشرے کی پہچان ہی نہیں ہوسکے پولیس کی وی آئی پیز کو کیسے ٹریٹ کرتی ہے بلکہ کسی بھی معاشرے کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے غریب طبقے سی کس طرح کا برتاؤ رکھتی ہے اور یہی معاشرے کی اصل پہچان ہوتی ہے کے پی پولیس میں مثالی اصلاحات کرکے اسے بہتر پولیس بنایا گیا تھا جس سے صوبے میں بہترین نتائج بھی ملے مجھے لیکن پنجاب میں ابھی تک وہ یہ اصلاحات لانے میں ناکام ہیں سندھ پولیس کی تو بات ہی نہ کریں وہ اپنی مثال آپ ہیں ہمیں ان دونوں ادارو میں اصلاحات اور عملی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے تاکہ مظلوم کو انصاف ملے اور قانوں کا بول بالا ہو اسی مضمون پر اپنا قول پیش خدمت کرتا ہوں
قانون اور محبت اندھی ہوا کرتے تھے پرانے زمانے میں آج قانون کے ہاتھ لمبے ہو کر لوگوں کے گریبانوں اور جیبوں میں ہیں جبکہ محبت کی تو ستر آنکھیں ہیں