کورونا وائرس اور بین الاقوامی سیاست
کورونا وائرس اور بین الاقوامی سیاست.چین جیسے ترقی یافتہ ملک سے جنم لینے والا ایک ننھا سا وائرس جسے کورونا وائرس کا نام دیا گیا ایک جان لیواوائرس ثابت ہوا۔ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس بیماری کو عالمی وبا قرار دیا گیا ۔ بخار ، کھانسی، گلے کا خراب ہونا ، سانس لینے میں دشواری جیسی معمولی علامات سے شروع ہونے والا یہ مرض جان لیوا ثابت ہوا۔ اس وائرس نے چین کے ڈاکٹرز اور تحقیقاتی عملے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے سائنسدانوں کو ششدر کر دیا۔ ہر کوئی اس کی تشخیص اور اس سے بچاؤ کے طریقے ڈھونڈنے لگا۔ 2019 میں کوئی نہیں جانتا تھا
کہ اس سے بچاؤ اس قدر آسان ہو سکتا تھا۔ باہر جاتے ہوئے سرجیکل ماسک کا استعمال، ہاتھ ملانے سے گریز،ایک دوسرے سے گلے ملنے سے پرہیز اور سوشل ڈسٹنسنگ اس سے بچاؤ کا نہایت مفیداور آسان حل ثابت ہوا۔
کورونا وائرس کی علامات
کھانسی
بخار
گلے کا خراب ہونا
سانس لینے میں دشواری
پیٹ کا خراب ہونا
کورونا کی بنیادی علامات میں سے ہیں۔ انکے ظاہر ہونے پر ڈاکٹر سے لازمی رجوع کریں۔
کورونا وائرس اور بین الاقوامی سیاست
کورونا نےبین الاقوامی سیاست کو بہت بری طرح متاثر کیا۔ تمام تر سیاسی سرگرمیاں معطل کر دی گئیں ۔ کیونکہ جس تیزی سے یہ وائرس پھیل رہا تھا خدشہ تھا کہ سیاسی نمائندگان کی آمد و رفت اس کے پھیلاؤ کا سبب نا بن جائے۔ اس بنا پر بہت سی سیاسی سرگرمیاں فوری طور پر روک دی گئیں۔ تاکہ اس وائرس کی مزید تباہ کاریوں سے بچا جا سکے۔
کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ممالک
Covid’19 سے دنیا کا تقریباً ہر ملک متاثر ہوا۔ اس سے متاثر ہونے والے افراد میں صرف عام عوام ہی نہیں بلکہ مختلف ممالک کے سیاسی سربراہان بھی شامل تھے ۔ مختلف ممالک کا ووٹ دینے کا عمل بھی اس وائرس کے پھیل جانے کے ڈر سے روک دیاگیا۔چند ممالک ایسے تھے جو اس سے نہایت بری طرح سے متاثر ہوئے اور انہیں”Dead Countries” قرار دیا گیا۔ کیونکہ یہ وائرس وہاں اس قدر پنجے گاڑ چکا تھا کہ وہاں جانا خطرے سےخالی نہ تھا۔
کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی بنیاد پر ریٹ کیا گیا تو اٹلی 27+کے ساتھ پہلے نمبر پر جبکہ جرمنی اور فرانس11+کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔
تقریباً 84 ممالک میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔
کورونا وائرس کےچین اور امریکہ پر اثرات
کورونا کی شروعات چین سے ہوئی اور وہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اس کی وجہ سے چین کے سیاسی حریف امریکہ نے چین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔ امریکہ کے مطابق کورونا وائرس کی روک تھام چین میں ٹھیک سے نہیں کی گئی جسکی وجہ سے یہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ جبکہ چین میں سب سے پہلے آنے کے باوجود چین نے اس پر بہت عمدہ طریقے سے قابو پایا ۔ جبکہ امریکہ کورونا سے متاثرہونے والے سرِ فہرست ممالک میں شامل ہو گیا۔
کورونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد
پوری دنیا میں کورونا سے اب تک 62،184،343 کیسز رپورٹ کئے گئے ۔جن میں سے 42،963،680 لوگ صحت یاب جبکہ 1،452،677 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ کوروناکی دوسری لہر کو پہلی کی نسبت زیادہ شدید بتایا جا رہا ہے۔ مگر احتیا طی تدابیر پر عمل کر کے اس سے بچا جا رہا ہے۔ مگر اس کے باوجود امریکہ 13،465،126 کیسز کے ساتھ پہلے نمبر پر اور انڈیا 9،364،241 سے دوسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں اس سے بچاؤ کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے جو بہت حد تک کامیاب بھی ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ترقی پذیر ملک ہونے کے باوجود اس کے انتہائی اثرات سے محفوظ ہے۔
کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے بین الا قوامی سیاستدان
ملک —سیاسی شخصیت— عہدہ
پو لینڈ —اینڈرے ڈوڈا — صدر
امریکہ— ڈونلڈ ٹرمپ— سابق صدر
اٹلی— سِلویئو برلسکونی — سابق وزیرِ اعظم
برازیل — جائر بولسو نارو — صدر
کینیڈا— صوفی گریگوار ٹروڈو — صدر کی اہلیہ
بر طانیہ — بورس جانسن— وزیرِ اعظم
فرانس— مشل بارنئیر — سیاستدان
کورونا وائرس کی احتیاطی تدابیر
بلاشبہ کورونا وائرس ایک جان لیوا مرض ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ڈر کے خودکو موت کے حوالے کر د یں کیونکہ
کورونا سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے
وہ چند احتیاطی تدابیر جنہیں اختیار کر کے اس سے بچا جا سکتا ہے۔
سرجیکل ماسک کا استعمال
ہاتھ ملانے سے گریز
گلےملنےسے پرہیز
ہاتھوں کو بار بار دھونا
ہاتھوں کو سینی ٹائز کرنا
سوشل ڈسٹنسنگ
بڑھتے ہوئے کورونا کیسزکی وجہ سے پوری دنیا میں “لاک ڈاؤن” لگانا پڑا۔ساری دینا کو گھروں میں قید کرنے والی صورتِ حال کاسامناکرنا پڑا۔ اس کی وجہ سے عالمی سطح پر معاشی بہران پیدا ہو گیا۔ سیاسی سرگرمیاں مفلوج ہو کر رہ گئیں۔ سیاسی جلسے جو کہ سیاست کا حسن ہوتے ہیں ناپید ہو کر رہ گئے۔ دینا ایک قید خانہ بن گئی۔ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ بہت سے ممالک نے پہلی لہر سے بہت کچھ سیکھا اور کورونا وائرس کی دوسری لہر کےدوران “اسمارٹ لاک ڈاؤن” کر کے اس وبا کے روک تھام کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کو بھی احسن طریقے سے جاری و ساری رکھا ہے۔ اور ثابت کیا ہے کہ
کورونا سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے