محمد بن قاسم:
اگر سندھ کی اس وقت کی داخلی صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ سندھ کا حکمران راجہ داہر خود برہمن ہندو تھا،مگر وہاں بڑی تعداد میں بدھ مت اور ہندوؤں کی دوسری ذاتیں جیسے شودر وغیرہ بھی آباد تھیں کہ جن کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا تھا۔امن و امان کی صورتحال ابتر تھی، اور معاشی اور معاشرتی اعتبار سے یہ انتہائی پسماندہ علاقے تھے۔کوئی ریاستی انتظامی ڈھانچہ موجود نہ تھا،غربت اور جہالت عام تھی۔بد انتظامی،بد عنوانی اور ظلم و ستم کی وجہ سے انسان حیوان سے بھی بد تر زندگی گزارنے پر مجبور تھے،مگر نہ تو حکمرانوں کو کوئی پرواہ تھی اور نہ ہی ان کے پنڈتوں کو،کہ دونوں ہی طبقے رعایا کے استحصال اور خون چوسنے میں شراکت دار تھے۔
مسلمان اس سے قبل رومی اور ایرانی سلطنتوں کو فتح کر چکے تھے۔مصر سے لیکر شمالی و مغربی افریقہ تک اسلامی پرچم لہرا رھا تھا۔تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان جہاں بھی گئے دشمن کی حکومتوں،لشکروں اور فوجوں سے تو جنگ ہوتی تھی،لیکن مقامی آبادی ہمیشہ مسلمانوں کی اخلاق و کردار سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتی۔
مسلمانوں کی فتوحات میں ان کے حسن سلوک کا بڑا عمل دخل تھا کہ جو انہوں نے مقامی آبادی سے روارکھا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مقامی آبادی اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے سابق حکمرانوں کے خلاف مسلمانوں کی حلیف بن جاتی کہ جو صدیوں سے ان پر ظلم کررہے ہوتے۔آج اگر ایشیا وسطی سے لیکر شمالی افریقہ تک لوگ مسلمان ہیں تو صحابہ کرام اور بعد میں آنے والے فوجوں کے انہی اعلیٰ ترین اخلاق،کردار اور انصاف کی وجہ سے ہیں۔علاقے تو تلوار سے فتح کیے گئے،مگر دل اخلاق سے جیتے گئے!
آئیں یہاں پر ہم اپکو تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ سناتے ہیں کہ جو حضورؐ کے رحمت العالمین ہونے کی ایک عظیم الشان مثال ہے (جاری ہے)