وہ ہم سا تھا
رات کے اندھیرے میں کالے شیشوں والی ایک گاڑی اسلام آباد کی شاہراہوں پر تھی۔پولیس کو کال موصول ہوئی کہ شمس کالونی میں چوری کی واردات ہو رہی ہے جلدی آئیں۔ اسی علاقے میں اے ٹی ایس کے اہلکار گشت پر تھے۔ انہوں نے ایک گاڑی دیکھی جس جے شیشے بلیک کلر کے تھے اور لگ ایسا رہا تھا جیسے اس میں پوری دنیا کو مطلوب کوئی شخص بیٹھا ہوا اسے دوڑا رہا ہے۔ اسے روکنے کی کوشش کی گئی لیکن گاڑی دھواں اڑاتی اور سب کو پیچھے چھوڑتی آگے بڑھتی گئی۔ ایسے میں ان اہکاروں کے پاس بھی کوئی آپشن نہ تھا مجبوراً گاڑی کا تعاقب کرنے لگ گئے۔ ابھی جی دس پر تھے کہ گاڑی پر قابو پانے اور پوری دنیا کو مطلوب شخص پر گرفت حاصل کرنے کے لیے فائرنگ کی گئی۔ دوسری طرف سے بھی فائرنگ ہوئی ظاہری سی بات تھی اس میں بھی کوئی عام شہری نہ تھا۔ عموماً ہم نے لالی ووڈ کی فلموں میں دیکھا ہے کہ ہیرو کو کئی گولیاں لگتی ہیں لیکن پھر بھی وہ زندہ سلامت بچ جاتا ہے اور اپنے دشمنوں کو بھون ڈالتا ہے۔ اہلکاروں نے بھی اسی سوچ کے تحت آگے سے بھی فائرنگ کی پیچھے سے بھی کہیں یہ بھی زندہ ناں ہو جائے اور ہم سب کو بھون ڈالے۔ یکے بعد دیگرے کئی گولیاں چلائیں گئیں اور پوری دنیا کو مطلوب شخص اسام ستی کو بالآخر خاموش کر دیا گیا تھا۔
جی ہاں اسامہ ستی جو کہ یونیورسٹی کا ایک طالب علم تھا۔ کیا وہ کسی اینگل سے ایسا لگتا تھا کہ اس کے تعلقات کسی دہشت گرد تنظیم ہوں۔یہ تو بیچارہ اپنی پڑھائی کا بوجھ ناں اٹھا سکتا تھا جس کے لیے وہ کیب چلاتا تھا اور اپنے یونیورسٹی کے اخراجات اٹھاتا تھا۔ گاڑی سے پستول برآمد نہیں ہوا تو کیسے اس نے پولیس اہلکار پر فائر کھولے۔یہ تو بیچارہ اپنے دوست کو شمس کالونی میں چھوڑ کر واپس جا رہا تھا کہ اس کے زندگی کے چراغ کو بجھا دیا گیا تھا۔ اس کے گھر والوں لر قیامت گرا دی جا چکی تھی۔ایک نوجوان جو کہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا جس کی زندگی ابھی شروع ہی ناں ہوئی تھی۔جو کہ پاکستان کا آنے والا مستقبل تھا تاریک کر دیا گیا۔جس نے مستقبل میں آپنے والدین کا سہارا بننا تھا انہی والدین کی بیساکھیوں کو رات کے اندھیرے میں توڑ دیا گیا تھا۔اے ٹی ایس اہلکاروں نے کیا آج تک کسی دشمن کو پکڑا ہے سوائے ان معصوموں کے جو کہ آئے روز ان کی زد میں آ جاتے ہیں۔جو وقتاً فوقتاً ان کا شکار بنتے ہیں۔اس سے پہلے ساہیوال میں ایک فیملی پر قیامت برپا کی گئی تھی۔ ابھی تو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث اہلکاروں اور ملوث افراد کو سزا ہوئی تھی کہ سانحہ ساہیوال ہو گیا ابھی اس کے زخم مندمل ناں ہو پائے تھے کہ ایک نوجوان کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ اور وہ بھی ان اداروں کی جانب سے جوکہ ہمارے اپنے رکھوالے ہیں۔ جو ہماری جان و مال اور آبرو کے محافظ تھے ان کی جانب سے عام شہریوں کا قتل تشویشناک ہے۔یہ نوجوان کون سے دہشت گرد حملے میں ملوث تھا؟ اس کی گاڑی میں سے کوئی اسلحہ تو موجود نہ تھا تو پھر کیوں اس معصوم کو دہشت گرد ظاہر کر کے اس کی زندگی کا چراغ بجھا دیا گیا تھا؟ اگر کالے شیشے رکھںا جرم ہے تو اسلام آباد میں ہزاروں ایسی گاڑیاں ہیں جن کے تو نمبر پلیٹس اوریجنل نہیں ان پر کیوں نہیں ہاتھ ڈالا جا رہا؟اس پر شائد اس لیے ہاتھ ڈالا گیا تھا کیونکہ یہ چھوٹی گاڑی تھی؟یہ کسی متوسط گھرانے کی گاڑی تھی؟ اے ٹی ایس کے اہلکاروں کو ایک مخصوص ٹریننگ دی جاتی ہے جس میں کہ اگر کوئی گاڑی نہ روکے تو مخصوص انداز میں اس کے ٹائروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن یہاں تو معاملہ الٹا تھا۔ بجائے اس کے کہ ٹائروں کو نشانہ بنایا جاتا سامنے سے فائر کیے گئے۔ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے لیکن اس کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں اور نہ ہی ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی پراپر پیش رفت ہو رہی ہے۔
یہ ان دل دہلا دینے والا واقع تھا کہ ہر کوئی رنج کے عالم میں ہے۔ خاص طور میرے جیسے لوگ جو کہ نجانے کون کون سے خواب آنکھوں میں سجائے یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں۔ اب ہم سب میں بھی یہ خوف کی لہر دوڑ گئی ہے کہ کہیں ہم گھر سے یونیورسٹی کے لیے نکلیں اور واپس ہماری گولیوں سے چھلنی لاش آئے جس پر لیبل لگا ہو کہ مشکوک ہونے کی وجہ سے اسے قتل کر دیا گیا ہے اور ہمارے قاتل دندناتے پھر رہیں ہوں۔ اسامہ ستی کیا ہماری طرح کا ہی نوجوان نہ تھا؟کیا وہ بھی ہماری طرح ہی نہ آنکھوں میں خواب سجائے ہوئے تھا؟ وہ ہماری طرح ہی ناں متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا اور یونیورسٹی کے اخراجات کے لیے کیب چلاتا تھا جو کہ ریاست کی ذمہ داری تھی؟ ریاست کے اداروں نے تو اس کی ذمہ داری اٹھانے کی بجائے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کیا وہ ہم سا ناں تھا؟
Bilkul sai farmya ap ne
Bilkul sai farmya ap ne har tarfkhouf ki lehr hai ab…e