برطانوی سامراج کی آمد سے پہلے سرکاری تعلیم کا کوئی تصور ہندوستان میں موجود نہیں تھا بس رسمی تعلیم ہی یہاں دی جاتی تھی بس ۔پھر برطانوی سرکار نے لارڈ میکالے کی تعلیمی پالیسی کو رائج کرتے ہوئے یہاں سرکاری تعلیمی ادارے قائم کرنے کا آغاز کیا ۔انگريز تو یہاں ہندوستان کے لوگوں کو مستقل غلام بنانے آئے تھے اس لیے انہوں نے ایک طرف سرکاری سکول قائم کیے اور دوسری طرف ایچی سن جیسے تعلیمی ادارے قائم کیے
جس کا مقصد یہاں طبقاتی تفریق پیدا کرنا تھا تاکہ ایچی سن جیسے اداروں سے افسر شاہی پیدا کی جائے اور عام سرکاری تعلیمی اداروں سے کلرک ٫ سپاہی یا پھر چھوٹے سرکاری اہلکار پیدا کریں۔ پر جب پاکستان بن گیا انگریز یہاں سے چلے گئے پھر بھی طبقاتی نظام تعلیم ابھی تک رائج ہے ایک طرف بڑے تعلیمی ادارے ہیں جہاں کیمبرج یا آکسفورڈ کا نصاب پڑھایا جاتاہے اور دوسری طرف چھوٹے پرائیویٹ اور سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جہاں معمولی درجے کا نصاب پڑھایا جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے- ایک طرف بڑے اداروں سے آفیسر پیدا ہورہے ہیں اور دوسری طرف چھوٹے موٹے کلرک سپاہی یا پھر استاد اور لیکچرر بن جاتے ہیں ۔حکومت کا دعوی ہے کہ نوکری میرٹ پر دی جائے گی پر مقابلہ کے امتحان کو وہی پاس کرے گا جو معیاری اور اچھا نصاب پڑھ کے آیا ہوگا یہ ایسا ہی ہے کہ دو لوگوں کی دوڑ ہو اور ایک کے پاؤں باندھ کر دوسرے کو جتوا دیا جائے یہ میرٹ نہیں بلکہ ناانصافی ہے اور حضرت علی ؓ کا فرمان ہے کہ معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم پر قائم نہیں رہ سکتا ۔ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے چار پانچ طرز کا نظام تعلیم رائج ہے
جس کی وجہ سے نا صرف طبقاتی تفریق پیدا ہورہی ہے بلکہ تعلیم کا نظام بھی بری طرح ناکام ہورہا ہے مجھ سمیت میرے عمر کے لوگ آخری لوگ ہیں جن کے ساتھ ہر طبقہ کے بچے سرکاری تعلیمی اداروں سے پڑھے ہیں لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ امیروں کے تعلیمی ادارے الگ مڈل کلاس کے الگ اور غریبوں کے تعلیمی ادارے بالکل الگ ہوچکے ہیں جس کی وجہ طبقاتی تفریق بہت زیادہ گہری ہوچکی ہے ۔ ریاست کاکام لوگوں میں تفریق کا خاتمہ کرنا ہے ناکہ تفریق پیدا کرنا اس لیے ریاست طبقاتی تعلیم کا خاتمہ کرے اور نصاب تعلیم امیر اور غریب کےلیے ایک ہی رائج کرے ورنہ یہ تقسیم اتنی گہری ہوجائے گی جس کو ختم کرنے کے لیے شائد بہت سخت اقدامات کرنے پڑیں ۔
Also Read:
https://newzflex.com/35057
سرکاری اساتذہ اپنے معاشی مطالبات تو کرتے رہتے ہیں لیکن طبقاتی نظام کے خاتمے کامطالبہ کبھی نہیں کرتے جس کی بنیادی وجہ بھی طبقاتی نظام تعلیم ہے جو ہمارےاندر طبقاتی شعور پیدا ہی نہیں ہونے دیتا اور ہمارے ستر فیصد سرکاری اساتذہ کے اپنے بچے بھی پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں جو سرکاری اساتذہ کا اعتراف ہے کہ سرکاری سکولوں میں پڑھایا جانے والا نصاب جدید تقاضوں پر پورا نہیں ۔ اب انتظار ہے کب یہاں سے طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ہوگا اور حکومت مفت ٫معیاری اور ایک جیسا نظام تعلیم رائج کرے گی
عبدالرحمن شاہ