Home > Articles posted by
FEATURE
on May 28, 2021

عالمی آبادی کا ایک نمایاں حصہ علم نجوم پر یقین رکھتا ہے، جس کا یہ کہنا ہے کہ رات کے وقت آسمان میں دکھائی دینے والے ستاروں اور سیاروں کی پوزیشنز زمین پر رونما ہونے والے واقعات پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ مغربی نجومیات کے مطابق سیاروں کی مدارالشمس پر پوزیشنز اور رقم کے 12 کانسٹلیشنز کے ساتھ ان کا مقامی تعلق ایک اتفاق نہیں ہے، جیسا کہ سائنس کہتی ہے۔ نجومیات کہتی ہے کہ آپ کی پیدائش کے وقت سیاروں کی آسمان میں پوزیشن آپ کی شخصیت کے پہلوؤں کا تعین کرتی ہے اور کسی بھی مخصوص دن ان کی پوزیشن آپ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا تعین کرتی ہے۔ کیا ان دعوؤں میں کوئی حقیقت ہے؟ بالکل نہیں اور میں وضاحت کروں گا کہ ایسا کیوں ہے۔نجومیات کا دعویٰ ہے کہ سیاروں اور ستاروں کی پوزیشنز ہم پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر کیسے؟ ہزاروں سال پہلے جب ان سیاروں کو خدا مانا جاتا تھا، تو شاید اس کو “جادو!” کہنا ہی کافی ہوتا تھا۔ لیکن جدید دور میں ہمارے پاس سائنس ہے۔ ہمارے پاس آلہ سازی ہے۔ ہمارے پاس کائنات کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کی صلاحیت ہے۔ لہذا اگر نجومیات حقیقی علم ہے تو ہمیں یہ جاننے کے قابل ہونا چاہئے کہ یہ کس طرح کام کرتا ہے۔ ان سیاروں کی وجہ سے زمین اور اس پر موجود لوگوں پر کس قسم کا اثر و رسوخ پیدا ہوتا ہے؟ کائنات میں چار بنیادی قوتیں ہیں۔ مضبوط جوہری قوت، کمزور جوہری قوت، برقی مقناطیسی قوت اور کشش ثقل۔ جوہری قوتیں جوہری پیمانے پر کام کرتی ہیں اور اسی وجہ سے یہ ہمیں متاثر نہیں کر سکتیں۔ برقی مقناطیسی قوت اور کشش ثقل کی فاصلے کے لحاظ سے کوئی حد نہیں ہے۔ یاد رکھیں کہ ہم ان دو قوتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسی مساواتیں ہیں جو ہمیں دو چیزوں کے مابین برقی مقناطیسی قوت یا کشش ثقل کی شدت کا حساب لگانے کے قابل بناتی ہیں۔ ان مساواتوں کے مطابق رات کے آسمان میں نظر آنے والے ستارے ناقابل یقین حد تک دور ہیں اور پس وہ ہم پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ یہاں تک کہ ہمارے نظام شمسی میں موجود سیاروں کی وجہ سے بھی ہم پر بہت محدود اثر پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر جوپیٹر کی طاقتور مقناطیسی فیلڈ ساتھ والے کمرے میں موجود ٹوسٹر کی مقناطیسی فیلڈ کے مقابلے میں آپ پر قدرے کم اثر انداز ہوتی ہے۔ ان سیاروں کی کشش ثقل آپ کے گیراج میں موجود کار سے بھی کم قوت کے ساتھ آپ کو کھینچتی ہے۔ لہذا اگر ان چار قوتوں میں سے کسی کو بھی نجومیات کے طریقہ کار یا میکانزم کے طور پر تجویز کیا جاتا ہے تو معاملہ تو ادھر ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ یہ قوتیں ہم پر اثر انداز ہوتی ہیں تو کشش ثقل پیدائش کے وقت آپ کی شخصیت کا تعین کیسے کرسکتی ہے؟ ہماری شخصیت کا فیصلہ ہماری جینیات یا جنیٹکس کرتی ہے۔ نجومیات کا جنیٹکس سے کیا تعلق ہے؟ جواب بہت آسان ہے۔ اس کا جنیٹکس سے کوئی تعلق نہیں۔ علم نجوم بیالوجی کے علم سے پرانا ہے۔ یہ جدید سائنس سے بھی کافی پرانا ہے۔ علم نجوم محض ایک قدیم توہم پرستی ہے، جو ایسے وقت میں مرتب ہوئی جب ہم سمجھتے تھے کہ زمین کائنات کے مرکز میں ہے۔ رقم کی علامتوں یا کانسٹلیشنز کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ یہ محض خیالی تصاویر ہیں۔ نجومیات ایک جعلی سائنس ہے۔ دوسری طرف علم فلکیات ایک اصل سائنس ہے۔ دنیا کے ہزاروں ماہر فلکیات میں سے صفر ماہر فلکیات علم نجوم پر یقین رکھتے ہیں۔ 10 میں سے 10 خلائی سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ علم نجوم میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ شاید آپ کو ان باتوں پر یقین نہیں آرہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ مساوات کو نہیں سمجھتے اور آپ کو سائنس دانوں پر اعتماد نہیں ہے۔ آئیے ہم آگے چلیں اور اس مفروضے کے تحت کام کریں کہ علم نجوم سچا ہے اور ہم ابھی تک اس کے طریقہ کار کو سمجھتے نہیں ہیں۔ اگر علم نجوم سچ ہے تو پھر نجومی ماہرین کو ایسی پیش گوئیاں کرنے کے قابل ہونا چاہئے جو حقیقت سے منسلک ہوں، جیسا کہ ہم سائنس میں کامیابی کے ساتھ کرتے ہیں۔ مختلف قسم کے تجربات کیے جاچکے ہیں۔ ان تجربات میں نجومیوں سے کہا گیا کہ وہ نفسیاتی پروفائلز کی بنیاد پر لوگوں کو ان کے چارٹ سے ملائیں۔ وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ ممکن ہے آپ کو لگتا ہو کہ وہ جعلی نجومی ہیں اور کچھ بھی جانتے نہیں ہیں۔ دیگر تجربات میں سینکڑوں ایسے افراد لیے گئے جن کے پیدائش کے اوقات میں صرف چند لمحات کا ہی فرق تھا، جو اب بالغ ہیں اور ان کی خصوصیات کی ایک بہت بڑی جانچ پڑتال کی گئی۔ آسمان ان تمام لوگوں کی پیدائش کے وقت ایک جیسا تھا۔ پس علم نجوم کے مطابق ان کے درمیان کچھ مماثلت لازمی ہونی چاہئے۔ لیکن ان لوگوں کے خصائل میں کوئی مماثلت نہ مل سکی۔ مزید برآں، ہوروسکوپ ایک بے معنی اور غیر واضح چیز ہے۔ ہوروسکوپس منفی خصوصیات سے زیادہ مثبت خصوصیات کی فہرست دیتے ہیں۔ کوئی بھی شخص اپنے آپ کو ہمدرد ، تخلیقی اور عقلمند سمجھے گا۔ ہوروسکوپس میں کوئی خاص معلومات نہیں ہوتی۔ ہوروسکوپس ہمیشہ ایسی چیزیں کہتے ہیں جیسے “آج آپ کو ایک اہم موقع ملے گا” ، “آپ کسی سے دوبارہ رابطہ کریں گے” ، “آپ کو آج ہی فیصلہ لینا پڑے گا”۔ یہ چیزیں تو ہر فرد پر ہر دن لاگو ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علم نجوم ایک جھوٹا علم ہے۔ منطقی ذہن رکھنے والے ہر شخص کو یہ سمجھنا چاہئے کہ علم نجوم میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ شاید آپ یہ سمجھتے ہوں کہ علم نجوم بے ضرر ضرور ہے، بے شک غلط ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ جعلی سائنس بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے، خاص کر جب اقتدار میں رہنے والے لوگ اس پر یقین رکھتے ہوں۔ علم نجوم جیسی چیزیں ہمیں منطق کا استعمال کرنے سے روکتی ہیں اور منطق باخبر

FEATURE
on May 22, 2021

انسانی جسم بہت سارے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ تمام اعضاء اپنا مخصوص کام سرانجام دیتے ہیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے جسم میں ایسے درجنوں اعضاء، پٹھے, ہڈیاں وغیرہ موجود ہیں جن کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہوتی؟ ہمارے جسم کے ایسے تمام تر حصے ہماری ارتقائی تاریخ کی باقیات ہیں۔ ایسے اعضاء کو ویسٹیجیئل آرگنز کہتے ہیں۔ ایسے اعضاء ہر جاندار میں موجود ہوتے ہیں. یہ اعضاء ان جانداروں کے قدیم آباؤ اجداد کے لئے تو کارآمد تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ارتقائی تبدیلیوں نے کچھ اعضاء کو ناکام بنادیا۔ چلیں انسانی جسم میں موجود چند ایسے اعضاء کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں۔ آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ چار پیروں پر چلنے والے تمام جاندار ایک دم رکھتے ہیں جو کہ توازن برقرار رکھنے میں ان کی مدد کرتی ہے۔ انسان چار پیروں پر نہیں چلتے لیکن آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ ہماری ریڑھ کی ہڈی کے آخر میں ایک ٹیل بون موجود ہوتی ہے۔ تمام جانداروں میں دم کا آغاز اسی ہڈی سے ہوتا ہے۔ مزیدبرآں اکثر اوقات جب انسان ماں کے پیٹ میں اپنے چھٹے ہفتے میں ہوتا ہے تو اس کی ایک چھوٹی سی دم نکلنا شروع ہوجاتی ہے جس میں تمام ہڈیاں بھی موجود ہوتی ہیں۔ کچھ ہفتے بعد یہ دم غائب ہوجاتی ہے اور اس میں موجود ہڈیاں اکٹھی ہوکر ایک واحد ہڈی بن جاتی ہیں جس کو ٹیل بون یا کاکسکس کہتے ہیں. بعض اوقات بچہ دم کے ساتھ ہی پیدا ہوجاتا ہے اور اس صورت میں دم کو سرجری کے ذریعے ہٹا دیا جاتا ہے۔ بہت سے جاندار اپنے کان کو حرکت دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جیسے کہ بلیاں اور کتے۔ ان جانداروں کے کانوں کے بیرونی حصے میں ایسے پٹھے موجود ہوتے ہیں جو ان کے کان کو حرکت دیتے ہیں۔ ان پٹھوں کو آریکیولر مسلز کہا جاتا ہے۔ ان حرکات کا مقصد آتی ہوئی آواز کی سمت کی طرف کان کا رخ کرنا ہوتا ہے. ایک بلی اپنے کان کا رخ اس جانب موڑ سکتی ہے جس جانب سے آواز آرہی ہوتی ہے۔ یہ صلاحیت شکار کرتے وقت ان کو مدد دیتی ہے۔ ان حرکات کا ایک مقصد جذبات کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ تقریباً 22 فیصد انسانوں میں یہی پٹھے موجود ہوتے ہیں۔ ان پٹھوں کی انسان کو کوئی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ اگر ہمیں ضرورت ہوتی تو یہ پٹھے تمام انسانوں میں پائے جاتے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ پس آریکیولر مسلز بھی ایک ویسٹیجیئل آرگن ہے کیونکہ انسانوں میں یہ وہ کام سرانجام نہیں دے رہا جس کے لئے یہ وجود میں آیا۔ ہمارے پیٹ کے نچلے حصے میں بھی ایک ویسٹیجیئل آرگن موجود ہوتا ہے۔ ہماری بڑی آنت کے آخر میں ایک تنگ سی انگلی نما چیز ہوتی ہے جسے ہم اپینڈکس کہتے ہیں۔ یہ آرگن گھاس اور پتے کھانے والے جانداروں میں موجود ہوتا ہے۔ ان کی اپینڈکس ہماری اپینڈکس سے قدرے بڑی ہوتی ہے اور اس میں ایسے خوردبینی جاندار موجود ہوتے ہیں جو گھاس اور پتے ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ انسان تو گھاس اور پتے نہیں کھاتے۔ ہمارے پیٹ میں اپینڈکس ہونے کا کیا مقصد ہے؟ یہ آرگن بھی ہماری ارتقائی تاریخ کی باقیات میں سے ہے۔ اس کے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے قدیم آباؤ اجداد ایسے جاندار تھے جو گھاس اور پتے کچے کھایا کرتے تھے۔ پس انہیں اس آرگن کی ضرورت تھی لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے انسانوں کی غذا بدل گئی۔ غذا بدلنے کا ثبوت ہماری عقل داڑھ ہے جو خود ایک ویسٹیجیئل آرگن ہے۔ پس ہمارا اپینڈکس وقت کے ساتھ ایک ناکارہ عضو بن گیا۔ چونکہ انسانوں میں یہ ناکارہ ہوچکا ہے تو اس کو اگر سرجری کے ذریعے نکال بھی دیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ اگر ایک نومولود بچے کی ہتھیلی میں انگلی یا کوئی بھی چیز رکھی جائے تو وہ اپنی مٹھی فوراً بند کرلیتا ہے اور اس کی پکڑ کافی مضبوط ہوتی ہے۔ اس برتاؤ کو سائنس میں پالمر گراسپ ریفلیکس کہتے ہیں۔ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے تو یہ ریفلیکس ختم ہوجاتا ہے۔ یہی برتاؤ بندروں کے بچوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ بندر کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ مضبوطی سے چپکا ہوتا ہے۔ اس ریفلیکس کا استعمال کرکے بندر کا بچہ اپنی ماں کے جسمانی بالوں کو مضبوطی سے تھامے رکھتا ہے۔ یہ خوبی تمام پرائمیٹ میملز میں پائی جاتی ہے۔ پرائمیٹ میملز میں انسان، بندر، چپمینزی، گوریلا، اورینگوٹن وغیرہ شامل ہیں۔ پرائمیٹس کا بچہ پیدائش کے بعد کچھ عرصے تک کمزور ہوتا ہے، اپنا دفاع نہیں کرسکتا اور بقاء کیلئے اپنے والدین پر منحصر ہوتا ہے۔ بندروں اور چمپینزیز وغیرہ میں اس ریفلیکس کا موجود ہونا سمجھ آتا ہے لیکن انسانوں میں اس کے ہونے کی کیا منطق ہے؟ انسانی نومولود بچوں کو بندر کے نومولود بچوں کی طرح جنگلی جانوروں سے خطرہ نہیں ہے اور نہ ہی انسانی ماں کے جسم پر گھنے بال ہوتے ہیں جن کو بچہ تھام سکے۔ یہ ایک ویسٹیجیئل برتاؤ ہے۔ پس یہ برتاؤ بھی ہماری ارتقائی تاریخ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کیونکر ہمارے جسم میں درجنوں ایسے اعضاء موجود ہیں جن کے وجود کی وضاحت دینے کیلئے ارتقائی نقطہ نظر کو تسلیم کرنا لازمی ہے؟ کیونکر ہمارے ڈی این اے میں دم تشکیل دینے کی معلومات موجود ہے؟ کیونکر ہمارے ڈی این اے میں ایسے پٹھے تعمیر کرنے کی معلومات موجود ہے جن کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں؟ کیونکر ہمارے ڈی این اے میں ایسا عضو تشکیل دینے کی معلومات موجود ہے جس کی ایک تو ہمیں ضرورت نہیں بلکہ جو ہماری صحت کیلئے نقصان دہ بھی ہے؟ ان سوالات پر غوروفکر کریں اور ارتقائی نقطہ نظر سے باہر ان حقائق کی ٹھوس اور شواہد پر مبنی وضاحت تشکیل دینے کی کوشش کریں. جب ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو اپنا نوبیل پرائز جیت لیں۔

FEATURE
on May 20, 2021

آسمان میں نظر آنے والے کسی بھی عام ستارے کی طرح سورج نے اپنی زندگی کا آغاز خلا میں بھٹکتے گیس کے ایک وسیع بادل میں کیا۔ علم فلکیات میں خلائی بادل کو نیبولا کہا جاتا ہے۔ یہ خلائی بادل ستاروں کی جائے پیدائش ہوتے ہیں۔ نیبولا ہائڈروجن اور ہیلیم گیس پر مشتمل ہوتا ہے اور سورج بھی انہی عناصر سے بنا ہے۔ یہ دونوں گیسیں پوری کائنات میں وسیع مقدار میں پائی جاتی ہیں۔ ستاروں کی تخلیق کے عمل کی طرف رخ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کشش ثقل کی وجہ سے خلائی بادل کے نسبتاً کثیف حصے سکڑنا شروع کردیتے ہیں۔ سکڑنے کے اس عمل سے نیبولا کے اس حصے میں موجود گیسوں کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور وہ گیسیں ایک گھومتے ہوئے گولے کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ یہ عمل بہت سست ہوتا ہے اور اسے مکمل ہونے میں لاکھوں سال درکار ہوتے ہیں۔ اس سارے عمل کے نتیجے میں ایک ستارہ پیدا ہوتا ہے جوکہ انتہائی گرم گیسوں کا ایک بہت بڑا گھومتا ہوا گولا ہوتا ہے۔ ہمارا اپنا سورج آج سے تقریباً 5 ارب سال پہلے اسی عمل کے فضل سے وجود میں آیا جس کی طرف مختصراً اشارہ کیا گیا ہے۔ایک ستارے کو اس کے مرکز کی کشش ثقل نے جکڑا ہوتا ہے اور یہ ہر وقت ستارے کو مزید سکڑنے پر مجبور کرتی ہے. اگر کشش ثقل اس مقصد میں کامیاب ہوجائے تو ستارہ زیادہ دیر تک جی نہیں پاتا۔ لیکن ستاروں کے پاس کشش ثقل کو ٹکر دینے کے لئے ایک طاقت ور عمل ہوتا ہے اور اسی عمل کے ذریعے ستارے چمکتے بھی ہیں۔ اس عمل کو تھرمو نیوکلئیر فیوزن کہتے ہیں۔ یہی عمل نیوکلئیر ہتھیاروں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے سورج کے مرکز میں کم ماس والے عناصر یا ایلیمینٹس فیوز ہو کر یا مل کر زیادہ ماس رکھنے والے نئے عناصر تشکیل دیتے ہیں۔ مثلاً ہائڈروجن ایٹمز فیوز ہوکر ہیلیم بناتے ہیں اور ہیلیم کی فیوزن سے مزید عناصر بنتے ہیں۔ اس طرح یہ عمل بہت تیزی سے جاری رہتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں بہت ساری توانائی روشنی اور حرارت کی شکل میں خارج ہوتی ہے۔ اس توانائی کی وجہ سے ایک پریشر پیدا ہوتا ہے جس کی سمت کشش ثقل کی سمت کے متضاد ہوتی ہے۔ اس طرح فیوزن کا عمل ستارے کو مزید سکڑنے سے روکتا ہے اور اسے ایک ساکن حالت میں رکھتا ہے۔ ہمارا سورج بھی اسی وجہ سے اب تک قائم و دائم ہے۔ سورج اپنی پوری زندگی کم ماس رکھنے والے عناصر کو فیوز کرکے زیادہ ماس والے عناصر بناتا رہے گا اور اس عمل کے ذریعے سورج اگلے 5 ارب سال تک چمکتا رہے گا۔ 5 ارب سال بعد سورج میں فیوزن کا مواد ختم ہوجائے گا۔ جب فیوزن کا یہ عمل لوہے کے ایٹم تک پہنچ جائے گا تب مزید فیوزن ممکن نہ ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب لوہے کے ایٹمز کو فیوز کیا جاتا ہے تو اس عمل میں توانائی خارج نہیں بلکہ توانائی جذب ہونا شروع ہوجاتی ہے. مطلب یہ کہ جب لوہے کے ایٹمز کو فیوز کرنے کی باری آئے گی تو سورج اس کام میں ناکام رہے گا. پس فیوزن کا عمل رک جائے گا. کشش ثقل سورج پر غالب آجائے گی اور سورج سکڑنا شروع کردے گا. جب سورج سکڑے گا تو اس کے مرکز کا درجہ حرارت انتہا کی حد تک بڑھ جائے گا۔ اس کے مرکز میں اتنی توانائی اکٹھی ہوجائے گی کہ یہ ایک زبردست دھماکے کے ساتھ پھٹ جائے گا۔ سورج کی بیرونی تہیں خلا میں پھیل جائیں گی اور اس کا مرکز خلا میں اکیلا رہ جائے گا۔ اس عمل کو علم فلکیات میں سپر نووا کہا جاتا ہے۔ سورج بے شک زمین سے دس لاکھ گنا بڑا ہے لیکن بہت سارے دوسرے ستاروں کی نسبت یہ کافی چھوٹا ہے۔ پس سورج کا دھماکہ قدرے کم زوردار ہوگا۔ دھماکے کے بعد صرف سورج کا مرکز باقی رہ جائے گا جس کا سائز زمین کے برابر ہوگا۔ ایسے ستارے کو علم فلکیات میں وائٹ ڈوارف یا سفید بونا کہا جاتا ہے. وائٹ ڈوارفز کی کثافت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ان کی کثافت ایک ارب کلوگرام فی مکعب میٹر ہوتی ہے جو کہ زمین کی کثافت سے لاکھوں گنا زیادہ ہے. 10 ارب سال کی طویل زندگی جینے کے بعد سورج ایک وائٹ ڈوارف بن جائے گا جو آہستہ آہستہ اپنی حرارت خارج کرتا رہے گا اور ٹھنڈا پڑتا جائے گا۔ وہ وائٹ ڈوارف خود کھربوں سالوں تک چمکتا رہے گا لیکن اس میں فیوزن کا عمل رونما نہیں ہوگا۔ ہماری کائنات میں بہت سارے وائٹ ڈوارف ستارے موجود ہیں۔ پس ہم دوربینوں کے ذریعے سورج نما ستاروں کے آخری انجام کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ اس کی ایک مشہور مثال سیریئس بی ستارہ ہے جو کہ زمین سے تقریباً 8 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ یہ ستارہ سیریئس اے ستارے کے ساتھ مل کر ایک دوہری نظام بناتا ہے اور یہ زمین سے دکھائی دینے والا روشن ترین ستارہ ہے۔ پس ہمارے سورج کی زندگی کا آغاز آج سے تقریباً 5 ارب سال پہلے ہوا اور اس وقت یہ اپنی زندگی کے وسط میں ہے. یہ 5 ارب سال مزید چمکتا رہے گا اور پھر ایک دھماکے کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔ اس وجہ سے نظام شمسی کا بھی اختتام ہوجائے گا. دھماکے کے بعد ایک وائٹ ڈوارف باقی رہ جائے گا جو آہستہ آہستہ اپنی حرارت کھوتا رہے گا اور پھر یہ بھی خلا کے وسیع اندھیروں میں ہمیشہ کے لئے گم ہوجائے گا۔

FEATURE
on May 17, 2021

بلاشبہ موسمی تبدیلیوں نے انسانی عقل کو ہمیشہ سے حیرانگی میں مبتلا کیا ہے۔ قدیم زمانے کے باشندے موسم کے بدلتے رنگوں کی وضاحت کے لئے غیرقدرتی قوتوں کا سہارا لیتے تھے. یقیناً ایسی وضاحتوں نے ہمیں صدیوں تک گمراہی میں رکھا۔ سائنسی طریقہ کار کی آمد کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ موسم ایک قدرتی عمل ہے اور اس کے پیچھے کی وجوہات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ جدید دور میں ہم سائنسی علم کی بدولت موسمی تبدیلیوں کی نہ صرف وضاحت کرسکتے ہیں بلکہ اس علم کے ذریعے مستقبل کے موسمی حالات کی پیش گوئی بھی کی جاسکتی ہے۔ یہ مشاہدہ تو ہر کوئی کرتا ہے کہ دن کے وقت سورج کی شعاعیں زمین پر گرتی ہیں۔ ان شعاعوں کو زمین کی سطح جذب کرتی ہے اور اس کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ جب سورج غروب ہوجاتا ہے تو زمین کی سطح جذب کی ہوئی حرارت کو خارج کرتی ہے۔ یہ حرارت اپنے اوپر موجود ہوا کا درجہ حرارت بھی بڑھا دیتی ہے۔ جب ہوا کا درجہ حرارت بڑھتا ہے تو اس کا حجم بھی بڑھ جاتا ہے۔ پس اس ہوا کی کثافت اپنے سے بالاتر ہوا، جو کہ نسبتاً ٹھنڈی ہوتی ہے، سے کم ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے کششِ ثقل زیادہ کثافت رکھنے والی بالاتر ہوا کو زیادہ قوت سے کھینچی ہے اور وہ ہوا نیچے بیٹھ جاتی ہے۔ اس ہوا کی جگہ لینے کے لئے گرم ہوا اوپر اُٹھ جاتی ہے۔ اس طرح ٹھنڈی ہوائیں نیچے بیٹھتی جاتی ہیں۔ زمین کی سطح ان کا درجہ حرارت بڑھاتی رہتی ہے اور وہ اوپر کو اٹھتی جاتی ہیں۔ اس عمل کی وجہ سے زمینی علاقوں کے اوپر موجود ہوا کی کثافت نسبتاً کم ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس سورج کی وہ شعاعیں جو سمندروں پر گرتی ہیں ان کا بیشتر حصہ واپس خلا میں چلا جاتا ہے کیونکہ پانی روشنی کو اس کی گزشتہ سمت میں واپس بھیجنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سائنس میں اس عمل کو ریفلیکشن کہتے ہیں۔ سورج کی حرارت کی وجہ سے سمندروں کا پانی بخارات بن کر اوپر اٹھتا ہے۔ یہ بخارات ہوا میں شامل ہو کر اس کی نمی کو بڑھا دیتے ہیں۔ نمی سے بھرپور یہ ہوا زمینی ہواؤں کی نسبت زیادہ کثیف اور ٹھنڈی ہوتی ہے۔ سائنس میں ہر وہ چیز جو بہنے کی قابلیت رکھتی ہے اسے سیال (Fluid) کہا جاتا ہے۔ چونکہ ہوا بہتی ہے تو سائنس کی رُو سے ہوا بھی ایک سیال ہے۔ سائنس میں ایک اصول ہے کہ سیال ہمیشہ زیادہ کثافت سے کم کثافت کی جانب حرکت کرتا ہے۔ یوں سمندروں کے اوپر موجود ٹھنڈی اور نَم دار ہوا زمینی علاقوں کی جانب حرکت کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس نَم دار ہوا میں موجود پانی کے باریک بخارات آپس میں مل کر بادلوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اس طرح زمینی علاقوں میں ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہوجاتی ہیں اور آسمان کو بادل گھیر لیتے ہیں۔ بارش برسانے والے بادل سیاہ اس لئے ہوتے ہیں کیونکہ ان میں پانی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور پس یہ سورج کی روشنی کو روکتے ہیں۔ بادلوں میں موجود پانی کے بخارات حرکت کی وجہ سے آپس میں ٹکراتے رہتے ہیں اور ان کی جسامت اور ان کا وزن بڑھتا جاتا ہے۔ پانی کے بخارات قطروں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ پس ہوا ان کے وزن کو سہارا دینے کے قابل نہیں رہتی اور یہ قطرے زمین کی طرف گرجاتے ہیں۔ بخارات سے قطرے بننے کا عمل بہت تیزی سے ہوتا ہے۔ بادلوں میں موجود پانی کے قطروں کا زمین پر گرنا عام زبان میں بارش کہلاتا ہے۔ مزید برآں طوفانوں اور بونڈروں کے بننے کی وضاحت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ پس یہ بات اب طے شدہ حقائق میں سے ہے کہ موسمی تبدیلیوں کا تعلق قدرتی عناصر سے ہے اور ان عناصر کا مطالعہ خاطرخواہ حد تک ہوچکا ہے۔