لڑکی نے گاڑی دوڑادی

In اسلام
December 31, 2020

1992 میں یہ واقعہ میرے دوست جمیل اور جاوید کے ساتھ پیش آیا جب وہ دونوں ملتان کے ایک کالج میں پڑھتے تھے۔ آیئے واقعہ علی کا زبانی سنتے ہیں ۔سردیوں کا موسم تھا میں جاوید کے ساتھ سی ایک کی کلاس میں پڑھتا تھا جاو پی کیونکہ بچپن ہی سے بری صحبت اختیار کر چکا تھا

اور کلاس میں روزانہ کی ایک کی دھلائی کردیتا، میرا اچھا دوست تھا اس لئے اسے سمجھانا میرا فرض تھا لیکن وہ میری بات کو ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے نکال دیتا اور چند لوفرتم کے لڑکوں کو ساتھ ملا کر کان میں شرارتیں اورفسادکرتا۔ سارا کام ان سے ڈرتا تھا اور یہیں دی کہ کوئی شکایت کرنے کی بھی جرات نہ کرتا تھا۔ کالج میں جاوید کو اس کے اصل نام سے بہت کم لوگ جانتے تھے کیونکہ سارا کا اسے جیدی بھائی کے نام سے جانتا تھا۔ تمام پروفیسرزی جاوید کے ساتھ دو کی جماتے ۔ ان میں سے کوئی ایا نہ تھا جو اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ، وہی پیارے کیا کرتے کیونکہ وہ پہلے ہی پرنیل صاحب پر گزرا ہوا وقت دیکھ چکے تھے، جب جاوید نے پیپل کے منہ پر ایک تھپر رسید کیا تھا اور اس کا کوئی بال بھی بیان کر سکا۔ ایک دن کا ٹائم کے بعد میں نے جا و بی کو ساتھ لیا اور پریل کے دفتر کے سامنے ایک پلاٹ تھا اور اس میں ہم دونوں جا کر بیٹھ گئے۔

کان کے تمام اساتذہ اور طلبا ء جا چکے تھے اور چوکیدار بھی بازار گیا ہوا تھا ۔ میں مسلسل جاوید کو کھا رہا تھا کہ تمہارے گھر میں تمہارے اپنے مستقبل کی ضرورت ہے، ابھی بھی وقت ہےکہ اپنی ان حرکتوں سے بعض آجاؤ اس نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ بلکہ سر ہلاتارہاآخر جب مغرب کی اذان ہوئی تو میں نے سوچا کہا تاوقت باتوں ہی باتوں میں کیسے گزر گیااپنی ہی نہیں چلا، جب ہم بیٹھے تھے توہر طرف دھوپھی لیکن اب دهند شروع ہو چکی تھی میں خنگوں ہور کی گئی اس لئے ہم اٹھے اور گھر کی طرف چل پڑے۔ میں لاہور میں اپنےماموں کے گھر رہتا تھا اور چاویر اپنے چچازاد کے ساتھ کی فیکٹری میں رہتا تھا۔ ہم کانٹےکے تو اندھیرا چھا گیا تھا، پہلے تو ہم نے کالج کے باہر ایک پٹھان کے ہوٹل سے چائے پی اور چل پڑے۔ ہمارا گھر کا بج سے قریب ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھا اور ہمارے گھر کے نزدیک کی دو ایکٹر کی گئی جس میں جا پر رہتا تھا۔ ویسے تو ہم موٹر سائیٹ پر آتے تے مین آن موٹرسیال کیا ماموں کو ضرورت کی اس لئے دونوں کو پیدل آنا پڑا۔ ابھی ہم نے تھوڑی تیسترلے گیا تھا کہ ایک کاری تے آۓ تم نے افت بائی تو کاررا في – ادراک میں سرف ایک لڑکی تھی جوکار چلا رہی تھی اور وہ اتنی خوبصورت تھی کہ میں نے اتنی خوبصورت لڑکی پہلے بھی نہیں رکھی گئی ۔

پہلے تو وہ ہماری طرف تیاری پر درواز و تولا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ چاویر کو میاں نے پینے کے لئے آگے کیا اور جاوید کے بیٹھتے ہی لڑکی نے گاڑی کو سپیڈ دی اور میں کھڑارج کیا۔ میں بہت پریشان ہوا، میں نے گاڑی کے بچے دوڑنا شروع کر دیا ۔ کا زکی کاتی دور با کر رک گی گی ، میں جب کہ ترکی کے پا کیا بنایا تو حیران رہ گیا ، جاو یہ گاڑی میں بے ہوں حالت میں پڑا تھا اور واٹر کی جو گاڑی چلا رانی کی اس وقت وہاں نہ کی ، پھر میں نے ایک رکھنے والے کو روکا اور جاوید کور کے میں گھر لے گیا، میں نے جاتے ہی ڈاکٹر کو فون کیا اور چاو پی کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ اتنے میں ڈاکٹر صاحب آگئے انہوں نے جاوا ید وانجکشن دیا تو جاوید دو گھنٹے بعد ہوش میں آیا اور پھر میں نے اس سے یہ ماجرا پوچھا تو اس نےبتایا کہ باڑ کی چوخوبصورت کی آہستہ آہستہ ہر سورت بولی کی اس کے دانت باہر نکلتے گئے

اور آنکھوں سے شعلے نکلتے گئے کی نظر دیکھنے کے بعد مجھے کوئی خبر ہیں کہ مجھے کیا ہوا وہ کیا بلا تھی-اور مجھ سے کیا چاہتی تھی اس واقعہ کے بعد جاوید نے تمام حرکتوں سے باز رہنے قسم کھالی اور تمام پروفیسرز اور پرنسیپل صاحب سے معافی مانگ لی اور تمام طلباء سے معذرت کرلی اور جاوید انتہائی نیک انسان بن چکا ہے اور اسلام آباد کی ایک فیکٹری میں بطور میجر کام کررہا ہے جب بھی جاوید بھٹی پر آتا ہے تو وہی واقعہ میں یاد آ جاتا ہے اور ہمارے جسم کے
رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔