موسمیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے جدید سائنس کی بنیاد پر ان کا مقابلہ کررہی ہے تو وہاں ہم اس پانی کے آگے بیٹھ کر اس مقدس کتاب کی آیات تلاوت کررہے ہیں جس کو پڑھ کر ہمیں تدبر کرنے اور تسخیر کائنات کا حکم دیا گیا۔
جو کتاب ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی گزارنے کے لیے رہنما اصول بتاتی ہے بدقسمتی سے اسے سیلاب کی تباہ کاریوں کے آگے بند باندھنے کا سامان سمجھ لیا گیا۔جب بچپن سے ہمیں یہ پڑھایا جائے کہ دریائے نیل کی خشک سالی ختم کرنے کے لیے خط لکھ کر دریا برد کیا گیا اور اس کے بعد اس دریا نے کبھی خشکی نہیں دیکھی۔ تو ان واقعات کا منطقی نتیجہ یہی نکلے گا کہ ہم عمل اور تدبیر کے بجائے وظائف پر اپنی بقا کی بنیاد رکھیں گے۔
ہم معجزات کے منتظر رہتے ہیں کیونکہ ہم سوچنے سے ، محنت کرنے سے جی کتراتے ہیں ۔ اور اپنی سستی اور کاہلی کے سبب وظائف اور پھونکیں مار کر شارٹ کٹ طریقے پر اعتقاد رکھے ہوئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معجزات تو رونما ہوئے نہیں۔ البتہ تباہی پہلے سے بڑھ کر ہمیں خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے جارہی ہے۔ جس ملک کے باہر ممالک سے پڑھے لکھے وزراء اعظم پھونکوں اور ٹوٹکوں پر یقین رکھتے ہوں وہ اس قوم کو زندگی میں عملیت پسندی اور جدیدیت کا کیا درس دے گے۔
ایک فوجی آمر نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے پیر صاحب کے فرمان پر پہاڑوں کے ارد گرد نہ صرف ایک شہر آباد کیا بلکہ اسے ملک کا دارالحکومت بنادیا۔ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم جن کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ وہ پارٹی میٹنگز میں دیگر ممبران کی نسبت اونچی کرسی پر بیٹھتی ہیں ، کو پیر صاحب کے پیروں میں بیٹھے دیکھا۔۔۔۔
ابھی کل کی ہی بات ہے کہ ہینڈسم سابق وزیراعظم پوری حکومت تعویذ گنڈوں پر چلا رہے تھے۔ ملک کی آبادی کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ایک یوسی چیرمین جتنی قابلیت رکھنے والے فرد کے حوالے صرف اس لیے کیا گیا کہ ان کی پیرنی اہلیہ نے بتایا کہ اس کا سایہ آپ کے اقتدار کی ضمانت ہے۔اب اگر ملک کے سربراہان مملکت جو جدید دنیا کی بے مثل ترقی کا مشاہدہ کر چکے ہوں ان کی یہ حالت ہو تو پھر وسائل ، علم اور فہم سے محروم لوگ کیونکر ایسے عمل کرتے نظر نہیں آئے گے جیسا کہ زیر نظر تصویر میں مشاہدہ ہورہا ہے۔
خدارا مذہب کو اپنی روح کی تسکین کے سامان کا ذریعہ بنائیے۔ یہ جسم مادی ہے ۔ اس پر تمام مادی قوانین نافذ ہوتے ہیں۔ ماورائی اور نادیدہ قوتوں پر پھروسہ کرنے یا مخصوص آیات یا وظائف سے قومی تباہی کو روکنے کی تدبیر کرنے کے بجائے عملی طور پر ، علم ، عمل اور جدید سائنس کے ذریعے ان کو روکنے کی کوشش کیجیے۔۔۔۔۔
آخر میں ایک مشہور مقولہ کہ ایک مومن اور کافر دریا میں گر جائیں تو زندہ بچنے کا امکان اس کا ہو گا جو تیراکی جانتا ہو۔
اونٹ کا گھٹنا باندھ کر توکل کیجیے۔۔۔۔ ورنا تو ہم مخلوق ہوکر معاذاللہ خالق کی آزمائش کرنے والے کہلائے گے۔۔۔۔۔۔
✍️ انیلاخان۔۔۔
بروز اتوار ___18ستمبر
khananila441@gmail.com