منشیات ایک ایسا موذی مرض ہے جس کے استعمال سے نہ صرف منشیات کے عادی افراد کی اپنی زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں بلکہ خاندان اُجڑ جاتے ہیں،رشتے ناتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔معاشی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔سڑک حادثات میں اضافہ ہوتا ہے۔صحیح و غلط،جائز و ناجائز کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔جرائم کی تعدار میں روز بروز اضافہ ہوتا جاتا ہے۔غیر طبعی اموات کی شرح بڑھ رہی ہے۔
دنیا بھر میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان پر 7 دسمبر 1987 کو اقوام متحدہ نے اس دن کو ہر سال 26 جون کو منانے کا فیصلہ کیا۔اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 35 کروڑ سے زائد افراد اس وقت مختلف اقسام کی منشیات کا استعمال کر رہے ہیں۔اور ان کی تعدار میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 40 لاکھ افراد منشیات کے استعمال کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پاکستان میں منشیات اور نشہ آور ادویات کا غیر قانونی استعمال کرنے والوں کی تعداد قریب 90 لاکھ ہے،اور ان میں بڑی تعدار پچیس سے لیکر انتالیس برس تک کی عمر کے افراد کی ہے۔مشہور امریکی جریدے”فارن پالیسی”کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ڈھائی لاکھ افراد منشیات کے استعمال کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔منشیات پاکستان کے لئے کتنا بڑا مسئلہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں پچھلے دس سال میں دہشتگردی کے نتیجے میں 60 ہزار سے زائد افراد نے اپنی جانیں قربان کیں،
لیکن اس سے چار گنا زیادہ تعدار میں ہر سال پاکستان میں منشیات کی وجہ سے ہلاکتیں ہوتی ہیں۔نفسا نفسی اور گہما گہمی کے اس دور میں منشیات فروش نوجوانوں کی رگوں میں منشیات زہر کی طرح اتار رہے ہیں۔قتل،ڈکیتی اور دوسرے جرائم کی بڑھتی ہوئی ایک بڑھی وجہ منشیات کا کاروبار بھی ہے۔منشیات کے عادی افراد اپنا نشہ پورا کرنے کے لئے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں،اور اس مقصد کے لئے وہ کسی کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔پاکستان میں ہیروئن کی تیاری اور اسمگلنگ کا آغاز انقلاب ایران اور افغانستان پر روس حملے کے بعد ہوا۔ایرانی حکومت نے منشیات اسمگلروں کے لئے سزائے موت مقرر کر دی تو افغان جہاد کے دوران افغانستان کے بعض اسمگلروں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بااثر قبائلی افراد کے تعاون سے ہیروئن تیار کرنے کی لیبارٹریز قائم کر لیں۔افغانستان کو پاکستان سے آزاد تجارتی سہولتیں حاصل تھیں، اس سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا اور ہیروئن کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکلز پاکستان کے راستے درآمد کر کے قبائلی علاقوں میں قائم ہیروئن کی لیبارٹریز تک پہنچایا جاتا رہا۔اس مکروہ کاروبار میں نہ صرف بااثر افراد بلکہ منشیات کی روک تھام کے لئے قائم کئے گئے اداروں کے بعض بڑے افسران بھی ملوث رہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال سگریٹ اور شراب کے علاوہ منشیات جن میں چرس،افیون،ہیروئن وغیرہ شامل ہیں پر چالیس ارب روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔منشیات کا استعمال صرف یہی نہیں کہ مذہبی اور اخلاقی طور پر ممنوع ہے بلکہ اس کی پیداوار اس کی خریدوفروخت کرنے والے بھی مذہبی اور اخلاقی جرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔منشیات کے استعمال سے دل،جگر،معدہ،پھیپھڑوں کی بیماری،فالج،ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسے موذی امراض کا شکار ہو کر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں۔ نشہ آور اشیاءباآسانی دستیاب ہیں۔ایک شخص دوسرے شخص کو اس کا عادی بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
اعدادو شمار کے مطابق منشیات استعمال کرنے والے 73 فیصد افراد 60 سال کی عمر سے پہلے انتقال کر جاتے ہیں۔اور سب سے بڑا لمحہ فکریہ یہ ہے کہ نوجوان جو کسی بھی قوم کی ریڈھ کی ہڈی تصور کئے جاتے ہیں وہ سب سے زیادہ منشیات سے متاثر ہیں۔منشیات کی لت نے کالج اور یونیورسٹیز کے طلبا و طالبات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔پاکستان کے تعلیمی اداروں میں کھلے عام نوجوان لڑکے اور لڑکیاں منشیات استعمال کرتے ہیں۔منشیات فروشوں کے گروہ باقاعدہ کالجز اور یونیورسٹیز میں منشیات فراہم کرتے ہیں۔منشیات ہمارے نوجوانوں کا مستقبل دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔چند برسوں سے ہمارے معاشرے میں خواتین بھی نشے میں مبتلا دکھائی دیتی ہیں۔اس کی متعدد وجوہات ہیں،جن میں سرفہرست سماجی تربیت کا فقدان،گھریلو حالات،غربت،بری صحبت،نوکری کا نا ملنا وغیرہ شامل ہیں۔ابتداء میں خواتین میں تمباکو نوشی عام ہوئی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوسری نشہ آور ادویات اور نشہ آور انجکشن کا استعمال بڑھتا چلا گیا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ خواتین کو نشے کی لت سے نکالنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔افسوس کی بات ہے کہ منشیات کا کاروبار باآسانی چل رہا ہے اور نوجوان نسل اس کا شکار ہوتی چلی جا رہی ہے۔جس طرح آسانی سے موجودہ دور میں پیزا اور برگر دستیاب ہے بلکل اسی طرح سے منشیات بھی لوگوں کی دسترس میں ہے۔ہر شہر میں سڑکوں کے کنارے منشیات کے عادی افراد دنیا جہاں سے بے خبر اپنی زندگیاں تباہ کرتے نظر آئیں گے۔المیہ یہ ہے کہ بعض میڈیکل سٹورز بھی منشیات کے دھندے میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ایسے میڈیکل سٹورز سے پین کلرز اور ڈرگز کی ترسیل عام ہے۔گاہے بگاہے حکومت کی جانب سے اس حوالے سے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں اور منشیات فروش گروہوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔نشے کی لت میں مبتلا افراد کی اصلاح میں بہت بڑی رکاوٹ منشیات فروش اور انتظامیہ میں چپھی کالی بھیڑیں ہیں۔کیونکہ اگر نشے کے عادی افراد زندگی کی طرف واپس پلٹ گئے تو ان لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہو جائیں گے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ منشیات فروشوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے۔
حکومتی سطح پر کوششوں کے علاوہ لاتعداد غیر حکومتی تنظیمیں (این جی اوز)بھی انسدار منشیات کے حوالے سے سر گرم عمل ہیں۔مگر اس کے باوجود اس لعنت سے چھٹکار حاصل نہیں کیا جا سکا۔اس حوالے سے جدید ترین علاج اور منشیات کے عادی مریضوں کا مفت علاج کیا جانا چاہئے۔اس کے علاوہ سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیادہ سے زیادہ آگاہی کے لئے ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد ہونا چاہیئے۔نشے کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ نشے کی لت میں مبتلا افراد ایسے دوستوں کو ملنے سے اجتناب کریں جو ان کو نشے کی دعوت دیتے ہیں