بہت سی قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں ماضی کا حصہ بن چکی ہیں ۔تاریخ سے یہ بات بھی عیاں ہے کہ ایک قوم کی بربادی دوسری قوم کی ترقی بن جاتی ہے ۔ ایک قوم کا عروج دوسری قوم کا زوال ہے ۔ایک قوم حاکم اور دوسری محکوم ہے۔ اس دنیا میں ہزاروں قومیں اور حکمراں آئے اور اپنی عروج وزوال کی داستانیں چھوڑ کر مٹ گئے۔ کئی سکندر دنیا کو فتح کرنے کی جستجو لے کر اٹھے اور اسی جستجو میں خود فنا ہو گئے۔کئی شہر آباد ہوئے اور آخر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے ۔ یہ تاریخ کے انقلابات ہیں کہ کب کوئی زوال سے عروج پر آجائے اور محکوم حاکم بن جائے۔
ماضی کی ان داستانوں میں ہی قوموں کی حیات و مما ت کا راز پوشیدہ ہے۔یہ قدرت کا قانون ہے کہ طاقت ور آگے بڑھتا ہے اور کمزور مارا جاتا ہے۔طاقتور حاکم ہے اور کمزور محکوم ۔جو ڈرتا ہے اس کو مزید ڈرایا جاتا ہے اور جو دب جاتا ہے اس کو مزید دبایا جاتا ہے ۔ اس کے بر عکس جو ہمت اور حوصلے سے کام لیتا ہے وہ فلاح پا جاتا ہے ۔جس میں ہمت اور حوصلہ نہیں وہ آخر کب تک زندہ رہے گا۔دنیا کی اس کشمکش میں ہمت، عمل اور ایثار کی ضرورت ہے یہی ایک نکتہ ہے جس میں قوموں کی حیات و ممات کا راز پوشیدہ ہے۔ جو قوم اس کو سمجھ لیتی ہے وہ دریاؤں اور سمندروں کو چیرتے ہوئے ترقی کے منازل طے کرتی ہے۔زندگی عیش و عشرت کا نام نہیں بلکہ ہمت،جدو جہد اور ایثار سے زندگی بنتی ہے۔ ہمت اور ایثار سے ہی قوموں کی حیات ہے ورنہ موت ان کی منتظر ہوتی ہے۔کمزوری موت ہے اور موت سے ڈرنا بھی موت ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوم کو بنانے کے لیے کون سی طاقت درکار ہوتی ہے؟ یہ افراد کی اکثریت کی قوّت ہے یا مال و دولت کی فراوانی کی طاقت ہے۔اگر افراد کی اکثریت طاقت ہوتی تو ہندوستان پر انگریز قابض نہ ہوتا۔اس ہندوستان پر جہاں پینتیس کروڑ انسان بستے تھے۔چھے ہزار میل کے فاصلے سے آکر برطانیہ قا بض نہ ہو جاتا۔اگر دولت کی فراوانی طاقت ہوتی تو آج یہودی پوری دنیا پر حکومت کر رہے ہوتے لیکن ان کو دنیا کی زلیل ترین قوم سمجھا جاتا ہےکسی بھی قوم کی طاقت کے دو عنصر ہیں ایک قوّت مدافعت اور دوسرا قومی کردار۔قوّت مدافعت کسی بھی قوم کی وہ قوّت ہے جو قوم میں حملہ کرنے اور حملے کی جوابی کارروائی کرنے میں مدد دیتی ہے۔اگر کسی قوم میں یہ ہمّت نہیں تو وہ قوم تباہ ہوجائے گی اور اس کو غلامی قبول کرنی پڑے گی۔چین ایک وسیع و عریض ملک تھا لیکن جاپان اس پر حملہ آور تھا۔برطانیہ جس کی سلطنت کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا آخر کیوں وہ ہٹلر کی ایک للکار سے وہ کانپ اٹھا اور مسولینی کی گرج سے اس کا دل دہل جاتا ہے۔قوّت کے یہی وصف ہوتے ہیں۔
کسی بھی چیز کا بننا بہت مشکل ہے جب کہ اس بگاڑنا بہت آسان ہے۔اب کسی قوم کو کس طرح بنایا جا سکتا ہے۔ وہ کونسی چیز ہے جو کسی قوم کو زوال سے عروج سے تک لے جاتی ہے۔قومی کردار ایک ایسا عمل ہے جو کسی قوم کو ہر زوال سے بچا سکتا ہے۔ جہاں کردار بلند ہوا وہاں قوم بھی بلندی کی سطح تک پہنچ گئی جہاں کردار گرگیا وہاں لمحوں میں قوم بھی گر گئی۔ اب آتے ہیں کردار کی طرف،کردار کے معنی ہیں طرز،رَوِش،چال چلن،روّیہ،خصلت،عادت اور طور طریقہ،خیال ارادہ۔ جب کوئی فرد کسی دوسرے فرد کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اپنے فائدے کے لیے ہر ناجائز ذرائع کا استعمال کرتا ہے۔ملاوٹ کرتا دوسروں کی حق تلفی کرتا ہے۔خود غرضی کا بھوت اس کے سر پر سوار ہوتا ہے تو وہ ملکی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتاہے تو اس کردارکو ہم گرا ہو اکردار کہتے ہیں۔ اس کے بر عکس اگرکوئی فرد ذاتی مفاد کی بجائے ملکی مفاد کو ترجیح دیتا ہے اور کسی فرد یا ملکی املاک کو نقصا ن نہیں پہنچاتا تو ہم اس کو اچھا کردار کہیں گے۔
کردار ایک ایسا عمل ہے جو کسی ملک کے باشندوں میں محبت و شفقت اور یکجہتی کا بیج بو کر ترقی کی نوید سناتا ہے۔
ہر فرد اپنی قوم اور ملک کی خدمت کو اپنا مقصد حیات سمجھتا ہے۔وہ قوم کی خدمت کو اپنا فرض سمجھ کر کرتا ہے۔ اس طرح قوم ایک جسم بن جاتی ہے اور ایک فرد کادکھ درد سب کا درد بن جاتا ہے۔ ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ہر فرد اپنی قوم کے لیے ہر مصیبت جھیلنے کے لیے تیا ر ہوتا ہے۔ نہ کوئی ذاتی مفاد نہ کسی کا خوف صرف اورصرف ملک کی محبت اس کے دل میں ہو تو قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتی ہے۔قوم تب بنتی ہے جب قوم کی کردار سازی کی جائے جب فرد اور ریاست کا مقصد ایک ہو۔ اگر ریاست کے حکمران اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کریں اور اپنا پیٹ بھرنا شروع کردیں اور ریاست کےافرادحکمرانوں کی چاپلوسی کرنے لگیں تو قوم زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔جب کردار سازی کا فقدان ہو تو قوم میں خود غرضی جیسی لعنت پیدا ہوتی ہے۔نااتفاقی پیدا ہوتی ہے۔غدّاری اور ضمیر فروشی کا بازار سر گرم ہو جاتا ہے۔ تخریب کاری شروع ہوجاتی ہے۔جس کے نتا ئج قوم کی تنزلی کا باعث بنتے ہیں اور اخلاقی کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان اخلاقی کمزوریوں کا فائدہ بیرونی قوتیں اٹھاتی ہیں اور میر جعفر اور صادق جیسے غدّار پیدا ہوتے ہیں۔اگر کردا ر مضبوط ہوں تو کسی کو سونے کی عوض بھی نہیں تولا جا سکتا بلکہ وہ سونے چاندی کی بجائے اپنے ملکی مفادات کو ترجیح دیتا ہے اور حکمران بن جاتاہے۔