کچھ شرم ہوتی ہے ۔ کچھ حیا ہوتی ہے

In ادب
December 28, 2020

کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے یہ جملہ خواجہ محمد آصف نے کچھ سال قبل اسمبلی کے فلور پر بولا تھا اور پھر یہ جملہ ہماری سیاست کا تکیہ کلام بن گیا اور ہر سیاسی پارٹی اور سیاسی لیڈر اپنے مخالف سے کہتا سنائی دیتا تھا کہ کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے گھڑھی خدا بخش والے جلسے میں مریم نواز اور بلاول بھٹو کو ایک اسٹیج پر دیکھ کر ہر غیرت مند سیاسی کارکن یہ کہہ رہا تھا کہ کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے یہ وہی گڑھی خدا بخش ہے جسے مریم نواز کے والد محترم میاں محمد نواز شریف نے نشان عبرت قرار دیا تھا یہ وہی گھڑی خدا بخش ہے جہاں مادر جمہوریت کی قبر ہے جسے میاں محمد نواز شریف نے برطانیہ کی ایجنٹ کہا تھا اور ان پر طرح طرح کے گھٹیا الزامات لگائے جو کسی شریف النفس انسان زیب نہیں دیتے اور پھر انہیں قبروں کے پاس مریم نواز چیخ چیخ کہ جمہوریت کا راگ الاپ رہے تھے اور یقینا ان قبروں سے آواز آ رہی ہوگی کہ کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے
یہ مملکت خداداد بھی ہے جہاں سیاست ذاتیات سے شروع ہوکر ذاتیات پر ہی ختم ہو جاتی ہے
بحرحال کل گڑھی خدا بخش میں بلاول بھٹو زرداری نے بھٹو خاندان کے نظریے کو ایک نئی قبر کھود کر دفن کر دیا کل اسی جگہ بھٹو شہید کی قبر کے پاس آصف علی زرداری کے وہ الفاظ گونج رہے تھے کہ میں نے اور میری بیٹی نے میاں نواز شریف کو ایوان صدارت میں خوش آمدید کہا اور ان کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دئیے اب خدا ہی جانتا ہے کہ بھٹو صاحب قبر میں یہ الفاظ سن کے کتنے بے چین ہوئے ہوں گے بھٹو کی پیپلز پارٹی کی ساری زندگی جابر سیاسی تاجروں کے خلاف جدوجہد میں گزری تھی وہ سیاسی تاجر آج ان کی قبر پر آ کے اپنے اقتدار کی جنگ لڑ رہے تھے ۔ اس جلسے کے بعد ایک بات کا تو اندازہ ہوگیا کہ بھٹو کا نظریہ اب دفن ہو چکا ہے اور اگر بھٹو کا نظریہ دفن ہو گیا تو تاریخ شاہد رہے گی کہ پیپلز پارٹی اپنی موت آپ مر جائے گی کیونکہ نظریے سے پیچھے ہٹنا کسی بھی فرد پارٹی یا تحریک کی موت کے مترادف ہوتا ہے اور اگر بھٹو کا نظریہ سیاست سے ختم کیا گیا تو یہ سکوت ڈھاکہ سے بڑا سانحہ ہو گا اور پھر ہمیشہ کے لئے غریب کی آواز دب کر رہ جائے گی اور یہ ملک پھر سے وڈیروں تاجروں اور جاگیرداروں کے ہاتھ کا کھلونا بن جائے گا