بابر کے ہندوستان پر حملے کی وجوہات پندرہ سو چھبیس میں بابر نے پانی پت کی پہلی جنگ میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر خاندان مغلیہ کی حکومت کی بنیاد ڈالی اس وقت ہندوستان کے سیاسی حالات کچھ اس طرح تھے کہ تمام اہم منصوبوں میں آزاد اور خود مختار حکومت قائم ہوچکی تھی ان سب کے درمیان کسی قسم کا سیاسی انتظامی روابط و تعلقات پاک نہ ہونے کے برابر تھا اس تو میں سے اکثر اپنے اثر و رسوخ کو مزید بڑھانے اور وسط دینے سے ایک دوسرے سرے پہ کار رہتی تھی اور شمال مغربی ریاستوں کو چھوڑ کر باقی ہندوستان میں سب سے اہم اور طاقتور راجپوتوں کا تھا .
ان میں راجستھان کا حکمران حسن گا اپنے اقتدار پھیلانا چاہتا تھا سیاسی استحکام کا فقدان تھا ملک کو طویل و عریض علاقہ نیت اور مرکزیت کا دور دورہ تھا تھا سارا ہندوستان چھوٹے چھوٹے خودمختیار راستوں میں ریاستوں میں بٹا ہوا تھا اکثر ریاستی ایک دوسرے کے خلاف صرف آ رہی تھی کسی ایسے قابل اور سمجھ دار حکمران کی ضرورت تھی جو حالات کو قابو کر سکے دور دراز کے ممالک تک پہنچی تھی حکمران طبقہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتا تھا اندرونی اور بیرونی تجارت بھی اپنے عروج پر تھی بیرونی ممالک میں ہندوستان کی چیزوں کی بڑی مانگتی دولت کی داستانیں یہ سن کر بابر ہر بھی پہنچ گئے اسی لیے اس نے ہندوستان پر حملہ کیا اور بابر اپنی کتاب توزک بابری میں لکھتا ہے کہ ہندوستان کی بس ایک ہی خوبی یہ وسیع ملک ہے
اور اس نے چاندی کے بے تحاشہ ذخائر موجود ہیں بابر کی بڑی خواہش تھی کہ وہ سمرقند پر قبضہ کریں کیونکہ یہ اس وقت اس کی دعا مسجد امیر تیمور کا دارالخلافہ تھا اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے بابر چودہ سو ستانوے میں سمرقند پر حملہ کیا اور شہر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا ابھی بابر حکمران بنے ہوئے تقریبا تین ماہ کے مخالفین نے بابر کو قبضہ کر لیا اور پھر گانہ جو اس وقت بابر کے زیر حکومت میں تھا اس پر اس کے بھائی جان گئی رمضان کا قبضہ کرلیا اس طرح بابر تخت و تاج بادشاہ کر گیا چناں چہ سمرقند کہاں سے مایوس ہوکر بابر بابر نے ہندوستان کی طرف توجہ دیں امی کے بعد بابر نے ہندوستان کو فتح کرنے کی دوسری طرف بھرپور توجہ دی افغانستان میں مختلف قوموں خاص طور پر جب قوم میں انتشار پیدا کیا ہوا تھا جبکہ بابر کو ایک محفوظ مقام کی تلاش تھی اور اس سے پہلے بھی کئی حکمران اندرا خیبر کے راستے ہندوستان کی تفسیر کر چکے تھے لہذا اس نے ہندوستان کو فتح کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس میں کامیاب بھی ہوا.