ایک دفعہ قریش ایک مجلس میں جمع ہوئے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غوروفکر کیا اور کہنے لگے کون ہے جو محمد کو قتل کرنے کی ذمہ داری لےسیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میں یہ ذمہ داری قبول کرتا ہوں اس بات پر سب متفق ہوگئے سیدنا عمر سخت گرمی میں دوپہر کو تلوار سونت کر گھر سے نکل پڑے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جانثاروں کا رخ کیا جن میں ابوبکر علی اور حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ جیسے جلیل القدر حضرات بھی شامل تھے.
یہ وہ لوگ تھےجو حبشہ کی طرف ہجرت نہ کر سکےسیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو کسی نے خبر دی کہ سب صفہ کے نشیب میں واقع دارارقم میں جمع ہیں راستے میں عمر کی ملاقات نعیم بن عبداللہ الخام سے ہوئی اس نے پوچھا عمر کہاں جا رہے ہوعمر نے کہا میں اس بے دین کو قتل کرنے جا رہا ہوں جس نے قریش میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی ہےان کے عقلوں کو ناقص گردانا ہے ان کے میں عیب نکالے ہیں اور ان کے معبودوں کو گالیاں دی ہیں یہ سن کر نعیم نے کہا آپ بہت غلط راستے پر جا رہے ہیں آپ نے جان کو دھوکے میں ڈالا ہے غور کریں آپ تمام بنوادی کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں کیا آپ کو علم نہیں کہ بنو عبد مناف آپ کو زندہ نہیں چھوڑیں گےاسی باعث و مباحثے میں دونوں کی آوازیں بلند ہونے لگی سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ تو بھی بے دین ہو گیا ہے.
اگر مجھے یقین ہو جائے کہ تو بے دین ہو گیا ہے تو میں پہلے تیری گردن اتار دوں جب نعیم بن عبداللہ نے دیکھا کہ سیدنا عمر اپنے ارادے سے باز آنے والے نہیں تو انہوں نے کہا اے عمرمیں آپ کو یہ خبر دیتا ہوں کہ آپ کے بہنوئی اور ان کے تمام اہل خانہ مسلمان ہو چکے ہیں اور آپ بدستور اپنی گمراہی پراڑے ہوئے ہیں یہ بات سن کر سیدنا عمر نے فورا کہا مجھے ان کے نام بتاؤ نعیم نے کہا وہ آپ کے چچا زاد اور آپ کی بہن ہیں.
نیوز فلیکس 1 مارچ 2021