Skip to content
  • by

تذکرہ فاتح قبلہ اول مجاھد اسلام عظیم سپاہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی کون تھے؟

الناصر صلاح الدین بن یوسف بن ایوب جنہیں عام طور پر صلاح الدین ایوبی کے نام سے جانا جاتا ہے ایوبی سلطنت کے بانی تھے۔ وہ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین و حکمرانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔

پیدائش: 1138, تکریت, عراق
وفات: 4 مارچ، 1193, دمشق, شام
جائے تدفین: مسجد اموی, دمشق, شام
شریک حیات: عصمت الدین خاتون
بچے: العزیز عثمان، الظاہر غازی، الافضل بن صلاح الدین، فاطمہ خاتون، مسعود بن صلاح الدين، إسحاق بن صلاح الدين، مزید
والدین: نجم الدین ایوب، ست خاتون

صلاح الدین ایوبی ‎کی پیدائش سے جڑا واقعہ

گورنر نجم الدین ایوب کافی عمر ہونے تک شادی سے انکار کرتے رہے ،ایک دن ان کے بھائی اسدالدین نے ان سے کہا بھائی آپ شادی کیوں نہیں کرتے ؟نجم الدین نے جواب دیا میں کسی کو اپنے قابل نہیں سمجھتا اسدالدین نے کہا میں آپ کیلئے رشتہ مانگوں ؟نجم الدین نے کہا کس کا ؟اسدالدین بولے ملک شاہ بنت سلطان بن مالک شاہ سلجوقی کی بیٹی کا یا وزیر الملک کی بیٹی کا ؟ نجم الدین نے کہاوہ میرے لائق نہیں ، اسدالدین حیرانگی سے بولےپھر کون آپ کے لائق ہوگی ؟نجم الدین نے جواب دیا :مجھے ایسی نیک بیوی چاہیے جو میرا ہاتھ پکڑکر مجھے جنت میں لےجائے اور اسی سے میرا ایک ایسا بیٹا پیدا ہو جس کی وہ بہترین تربیت کرے جو شہسوار ہو اور مسلمانوں کا قبلہ اول واپس لے ۔ اسدالدین کو نجم الدین کی بات پسند نہ آئی اور انہوں نے کہا ایسی تجھے کہاں ملے گی ؟نجم الدین نے کہا نیت میں خلوص ہو تو اللہ نصیب کرے گا۔

ایک دن نجم الدین مسجد میں تکریت کے ایک شیخ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، ایک لڑکی آئی اور پردے کے پیچھے سے ہی شیخ کو آواز دی ،شیخ نے لڑکی سے بات کرنے کیلئے نجم الدین سے معذرت کی نجم الدین سنتا رہا شیخ لڑکی سے کیا کہہ رہا ہے ۔شیخ نے اس لڑکی سے کہا تم نے اس لڑکے کا رشتہ کیوں مسترد کر دیا جس کو میں نے بھیجا تھا؟لڑکی :اے ہمارے شیخ اور مفتی وہ لڑکا واقعی خوبصورت اور رتبے والا تھامگر میرے لائق نہیں تھا ۔شیخ نے پوچھا تم کیا چاہتی ہو ؟لڑکی نے کہا شیخ مجھے ایک ایسا لڑکا چاہیے جو میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے جنت میں لے جائے اور اس سے مجھے اللہ ایک ایسا بیٹا دے جو شہسوار ہو اور مسلمانوں کے قبلہ اول کو واپس لےنجم الدین حیران رہ گئے کیونکہ جو وہ سوچتے تھے وہی یہ لڑکی بھی سوچتی تھی ۔نجم الدین جس نے حکمرانوں اور وزیروں کی بیٹیوں کے رشتے ٹھکرائے تھے شیخ سے کہا اس لڑکی سے میری شادی کروا دیں ۔شیخ نے کہا یہ محلے کی سب سے غریب گھرانے کی لڑکی ہے ۔نجم الدین نے کہا میں یہی چاہتا ہوں نجم الدین نے اس فقیر متقی لڑکی سے شادی کر لی اور اس سے وہ شہسوار پیدا ہوا جسے دنیا ” صلاح الدین ایوبی ” کے نام سے جانتی ہے

سلطان صلاح الدین ایوبی 1138ء میں تکریت میں پیدا ہوئے۔ اُن کے باپ کا نام نجم الدین ایوب تھا جو قلعہ تکریت کا حاکم تھا۔ عین اس موقعہ پر جب سلطان کی پیدائش ہوئی اُن کے باپ کو اس عہدہ سے سبکدوش کر دیا گیا۔ سلطان کا بچپن اور جوانی کا ابتدائی دور دمشق اور بعلبک میں گزرا جہاں اُن کا باپ پہلے عماد الدین اور پھر نورالدین زنگی کے ماتحت اُن علاقوں کا گورنر رہ چکا تھا۔سلطان نے بعلبک کے دینی مدرسوں اور دمشق کی جامع مسجد میں تعلیم حاصل کی۔ سلطان کو بچپن سے ہی دینی تعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا۔

سلطا ن صلاح الدین ایوبی کی زندگی کے چند اصول

صلاح الدین ایوبی ایک ایسے عظیم حکمران تھے جو میدانِ جنگ میں ایک بہادر جنگجو تو تھے لیکن وہ ایک رحم دل انسان بھی تھے- جب بھی کوئی یتیم ان کے دروازے پر آیا انہوں نے بہت شفت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور ان کو ان کے والد کے مال سے حصہ بھی دیا-صلاح الدین ایوبی نمازِ پنجگانہ کے پابند اور نفلی عبادت گزار تھے- انہوں نے کبھی کوئی نماز نہ چھوڑی اور نہ قضا کی- ان کے ساتھ ہمیشہ ایک امام موجود ہوتے تھے اور اگر کوئی امام نہ ہوں تو کسی عالمِ دین کے پیچھے نماز ادا کرلیتے تھے جو وہاں موجود ہوتا تھا-

ایک عظیم حکمران بننے کے لیے ایک انسان کو ہمت والا٬ اصولوں کا پابند٬ مضبوط ارادوں والا مگر انصاف اور رحم کرنے والا ہونا چاہیے- صلاح الدین ہر پیر اور جمعرات کو ایک اجلاس منعقد کرتے جس میں بیٹھ کر عوام کی فریاد اور تکالیف سنی جاتیں-اس محفل میں قانون دان٬ قاضی صاحبان اور عالمِ دین بھی شرکت کرتے تھے- صلاح الدین نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کی مدد کرنے میں کوتاہی نہیں برتی۔صلاح الدین ایوبی نے ساری زندگی جو کچھ کمایا اس کا بیشتر حصہ صدقہ و خیرات میں خرچ کردیا اور کبھی وہ اتنی دولت جمع ہی نہ کر پائے کہ وہ زکوٰۃ ادا کرتے- صلاح الدین کی ایک بڑی خواہش تھی کہ وہ حج ادا کریں۔

جنگ حطین 4 جولائی 1187ء کو عیسائی سلطنت یروشلم اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی افواج کے درمیان لڑی گئی۔ جس میں فتح کے بعد مسلمانوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے بیت المقدس کو عیسائی قبضے سے چھڑالیا۔ مصر میں فاطمی حکومت کے خاتمے کے بعد صلاح الدین نے 1182ء تک شام، موصل، حلب وغیرہ فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے۔ اس دوران صلیبی سردار رینالڈ کے ساتھ چار سالہ معاہدہ صلح طے پایاجس کی رو سے دونوں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے پابند تھے لیکن یہ معاہدہ محض کاغذی اور رسمی ثابت ہوا اور صلیبی بدستوراپنی اشتعال انگیزیوں میں مصروف تھے اور مسلمانوں کے قافلوں کو برابر لوٹ رہے تھے۔

1186ء میں عیسائیوں ‌کے ایک ایسے ہی حملہ میں ریجنالڈ نے یہ ناپاک جسارت کی کہ وہ دیگر عیسائی جنگجو امراء کے ساتھ شہرِ نبوی، مدینہ منورہ پر ناپاک حملے کی غرض سے حجاز مقدس پر حملہ آور ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کیلئے فوری اقدامات کیے۔ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حقیقی غلام نے اس بدبخت صلیبی سردار ریجنالڈ کا فوری تعاقب کرتے ہوئے اسے حطین کے تاریخی مقام پر جا لیا۔

سلطان نے اپنے آقا کے شہر مقدس پر حملے کی ناپاک جسارت کرنے والے صلیبی لشکر پر ایک ایسا آتش گیر مادہ پھینکوایا کہ جس سے میدان جنگ کی زمین پر چاروں طرف بھیانک آگ بھڑک اٹھی۔ اس خوفناک آتشیں ماحول اور بھڑکتے ہوئے شعلوں کے درمیان 1187ء کو حطین کے مقام پر تاریخ کی اس خوف ناک ترین جنگ کا آغاز ہوا جس کے انجام کو یاد کر کے آج بھی صلیبی حکمرانوں کے کانوں سے تپتا ہوا دھواں برآمد ہوتا ہے۔ اس تاریخی جنگ کے نتیجہ میں تیس ہزار سے زیادہ عیسائی حملہ آور جہنم واصل ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔

بدبخت ریجنالڈ کو زندہ گرفتار کیا گیا اور پھر سلطان نے مدینہ پر حملے کی ناپاک جسارت کرنے والے اس گستاخ صلیبی سالار کا سر اپنے ہاتھ سے قلم کیا۔اس فتح کے بعد اسلامی افواج چاروں طرف عیسائی علاقوں پر پوری طرح چھا گئیں۔ جنگ حطین کی شاندار فتح کے فوری بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا۔ سات دن کی خونریز جنگ کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال کر سلطان سے رحم کی اپیل کی۔ اور یوں پورے اکانوے برس کے بعد قبلہ اول بیت المقدس دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آ گیا۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے 57 سال کی عمر میں وفات پائی اور انتقال کے وقت ان کی جائیداد کی کل قیمت صرف 47 درہم اور ایک دینار تھی انہوں نے نسلوں کے لیے کوئی دولت کا انبار نہ چھوڑا-

دعاؤں کی درخواست ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *