پردے کے احکامات :- پردے کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشادھے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنی بیویوں ,بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں کو فرما دیں کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں ڈال لیا کریں یہ قریب تر ھے کہ ان کی پہچان ہو جائے,تو انہیں نہ ستایا جائےاور اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ھے۔(سورتہ الاحزاب) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اور تمام مسلمان عورتوں کو پردے کا حکم:- اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرمایا کہ اپنی بیویوں بیٹیوں اورتمام مسلمان عورتوں سے فرما دیں کہ گھروں سے باہر نکلتے وقت اپنے اوپر چادر لٹکا کیا کریں۔ یعنی حکم دیا گیا کہ پردہ اختیار کریں۔ تاکہ ان کی پہچان ہو جائے۔ پردے کا حکم اس وقت ہوا جب زمانہ جاہلیت کی عورتیں گھروں سے نکلتیں تو سینہ گردن اور بال وغیرہ کھلے رکھتیں۔فاسق اور شر پسند لوگ ان کے پیچھے پڑ جاتے۔ اسی وجہ سے آیت کریمہ نازل ہوئی۔ امام رازی فر ماتے ہیں کہ چہرہ ستر میں داخل نہیں ھے جو عورت اپنے چہرہ کو چھپائے گی اس سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنا ستر غیر کے سامنے کھولے ۔اپنی چادروں سےاپنے چہرے اور اطراف کو اچھی طرح ڈھانپ لیں۔تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ بدکار عورتیں نہیں ھیں۔ حدیث کی روشنی میں پردے کی اہمیت:- ترمذی میں روایت ھےکہ ” عورت اس وقت اپنے رب کے قریب ہو گی جب وہ گھر کے اندر ہو گی-” ترمذی میں ھے کہ :- جب عورت گھر سے باہر نکلتی ھے تو شیطان اس کی تاک میں لگ جا تا ھے اور اسے مسلمان میں برائی کا ذریعہ بنا دیتا ھے۔ حضرت انس سے روایت ھے کہ:- پردے کے بارے میں مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا وہ کہتے ھے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا جب پردے کی آیت نازل ہوئی تو حضرت زینب بھی پاس بیٹھی ہو ئی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور ان کے درمیان پردہ لٹکا دیا۔ پس منظر:- مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے علاوہ مشرکین اورمنافقین بھی آباد تھے۔یہ مسلمانوں کے سخت خلاف تھے۔کیو نکہ اسلام تیزی سے پھیل رہا تھا اور مسلمان نمایاں برتری رکھتے تھے اس وجہ یہ لوگ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے۔ جب مسلمان عورتیں قضا ئے حاجت کےلیے باہر نکلتیں تو اوباش لوگ انکے پیچھے آ جاتے اور ان پر فقرے کستے اور تنگ کرتے۔ اس وجہ مسلمان عورتیں اپنے آپ کو بچانے اور اسی بہانے سے پردے کا حکم ہوا۔ اور پردے کو ان کی شناخت اور پہچان بنا دیا۔تاکہ انہیں کوئی ایذا نہ دی جائے۔ جب مسلمان عورتیں گھروں سے باہر نکلتیں تو مسلمان اپنی جگہ کفار بھی اپنا راستہ چھوڑ دیتے۔ بے شک یہ اللہ کا فضل ھی تھا۔ اگر کوئی بھی خاتون پردے میں ہو تو برے سے برا شخص بھی ادب و احترام کا پہلو ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔
تعمیر سیرت کے عملی نمونے:- عشرہ مبشرہ: عشرہ کے معنی دس اور مبشرہ کے معنی خوشخبری کے ہیں۔اس طرح عشرہ مبشرہ سے مراد وہ صحابہ کرام ھیں جنہیں دنیا میں ہی جنتی ہونے کی خوشخبری سنائی گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہ درج ذیل ہیں۔ نمبر(1)حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نمبر(2)حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نمبر(3)حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نمبر(4)حضرت علی رضی اللہ عنہ نمبر(5)حضرت ابو عبید بن الجراع رضی اللہ عنہ نمبر(6)حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ نمبر(7)حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نمبر(8)حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نمبر(9)حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نمبر(10)حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی تفصیل درج ذیل ھے۔ نمبر(1)حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کا اصل نام عبد اللہ لقب صدیق اور کنیت ابو بکرتھی۔ آپ مر دوں میں سب سے پہلے ایمان لائے۔ آپ نے اپنی تمام دولت اسلام کے لیے وقف کردی۔ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یار غار ,یار بدر اور یار قبر ھیں۔ آپ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ آپ امیر حج بھی مقرر ہوئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ کو خلیفہ مقرر کیا گیا۔ آپ نے 13ھ 22 جمادی الثانی کو مدینہ میں انتقال کر گئے۔ نمبر(2)حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آپ کے والد مااجد کا نام”خطاب”تھا۔ آپ کا نسب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساتویں پشت میں مل جاتا ھے۔ آپ کا تعلق قریش سے تھا۔آپ کو لکھنا پڑھنا آتاتھا۔ شروع میں آپ اسلام کے سخت دشمن تھے۔ایک دن آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر نے کے لیے نکلے۔ لیکن آپ نے اسلام قبول کر لیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اسلامی سلطنت کو بہت وسعت ملی۔آپ رضی اللہ عنہ ابولولوفیروز کے ہاتھوں یکم محرم24ہجری کو مدینہ میں شہید ہوۓاورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن ہوۓ۔ نمبر(3) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ:۔ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت عبداللہ اور لقب ذوالنورین تھا ۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں آپ رضی اللہ عنہ کےنکاح میں تھیں۔آپ رضی اللہ عنہ بہت بڑے تاجر تھے۔مال ودولت کی کثرت کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ کو غنی کہا جاتا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا گیا ۔باغیوں نے18ذوالحجہ,35ہجری کو مد ینہ میں آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ شہادت کے وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر 82 سال تھی۔ نمبر(4)حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ کا نام”علی”کنیت”ابوالحسن”اور”ابوتراب”تھی اور لقب حیدر کرار تھا ۔حضرت فاطمتہ الز ہراہ رضی اللہ عنہاہ جن کا لقب خاتون جنت ہے آپ رضی اللہ عنہ کی ذوجہ محترمہ تھیں۔ دس سال کی عمر میں آپ ر ضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اورحضرت حسین رضی اللہ عنہ آپ کے صاحبزادےتھے۔ ہجرت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو آپنے بستر پر سونے کا حکم دیا۔ آپ19 رمضان40ہجری کو شہید ہوۓ۔ نمبر(5)حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ آپ کا اصل نام عامر بن عبد اللہ تھا۔کنیت ابو عبیدہ اور لقب امین الا مت تھا ۔اسلام لانے والے نویں شخص تھے۔غزوہ احد میں آپ نے اپنے دانتوں کے ذریعےحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی سے ذرہ کے حلقوں کو نکالا۔جس سے آپ کے دو دانت شہید ہو گئے۔اللہ نے آپ کو بہت سی فتوحات سے نوازا۔آپ طاعون کی وبا میں مبتلا ہو گئے اور اسی مرض میں آپ نے12 ہجری میں وفات پائی۔ نمبر(6)حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اآپ کا نام اور کنیت ابو اسحاق تھی۔ آپ17 برس کی عمر میں اسلام لاۓ۔آپ فاتح ایران کے طور پر مشہور ہیں۔غزوہ احد میں آپ نے ایک ہزار تیر چلائے۔شجاعت,صداقت اور استقامت آپ کے اوصاف ہیں۔ آپنے 55ہجری کو مدینہ میں 80برس کی عمر میں وفات پائی۔ نمبر(7)حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آپ کا نام عبدالرحمن اور کنیت ابو محمد تھی۔غزوہ احد میں آپ کے دو دانت مبارک ٹوٹےاور پاؤں بھی زخمی ہوا۔جس کی وجہ سے آپ لنگڑا کے چلتے تھے۔ آپ نے ترکے میں بہت دولت چھوڑی۔عشق رسول اور حب اسلام آپ کے اوصاف تھے۔آپ نے32 ہجری کو مدینہ میں وفات پائی۔ (8)حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ آپ کا نام زبیرکنیت ابو عبداللہ ہے ۔آپ کے لئے ا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”میرے ماں باپ تم پر قربان” آپ10 جمادی الثانی کو شہید ہو ۓ۔ نمبر(9)حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ آپ کا نام طلحہ اور کنیت ابو محمد تھی۔ آپ بھی اولین اسلام لانے والوں میں سے ھیں۔آپ غزوہ احد میں شہید ھوئے۔ نمبر(10)حضرتسعید بن زید رضی اللہ عنہ آپ کا نام سعید اورکنیت ابوالاعود تھی۔آپ عاشق رسول اور اسلام کے شیدائی تھے۔
اسلامی تہذیب و ثقافت کےخصائص اسلامی تہذیب ایک با مقصد فطری اورسادہ تہذیب ھے۔ جو ہدایات ربانی پر مبنی ھے۔اس میں انسان اور کائنات اور خالق ومخلوق کاتعلق بیان کیا ھے۔ اسلامی تہذیب زندگی کا مکمل اور منظم ضابطہ پیش کرتی ھے۔اسلامی تہذیب ثبات وتغیر کو پیش کرتی ھے۔یہ تہذیب ہمہ گیر اور ابدی ھے۔ اسلامی تہذیب کی امتیازی خصوصیات اسے دیگر تہذیبوں پر فوقیت دیتی ہیں۔ اسلامی تہذیب کی خصوصیات کی تفصیل یہ ھے۔ نمبر1)واضح نصب العین:-یہ ایک واضح مقصد اور نصب العین دیتی ھے۔ اس کی پہلی بنیاد عقیدہ توحید ھے۔سورہ النسا میں ارشاد باری تعالی ھےکہ انسان کا خمیر مٹی سے اٹھا یا گیا ھےاور مر کر مٹی میں مل جاۓگا۔ عقیدہ توحید سے مراد اللہ کو ایک ماننا ھے۔ کوئی اس کا شریک نہیں۔ وہ بے نیاز ھے کسی کا محتاج نہیں تمام کائنات اس کی محتاج ھے۔ ازل سے ھے اورابد تک رہےگا۔ نمبر2)اور اسلامی تہذیب کا دوسرا عقیدہ رسالت محمدی ھے۔یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا ھے۔ آپ صلی علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء اور سید الرسل ھیں۔ اب قیامت تک تمام انسانوں کے لیے نجات اور فلاح رسالت محمدی کے اتباع میں ھے۔ نمبر3)علم وحکمت: اسلامی تہذیب کی بنیاد علم و حکمت پر رکھی گئی ھے۔ سورہ البقرہ میں ھے کہ جسے علم وحکمت دی گئی اسے ہر بھلائی دی گئی۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وآلہ وسلم کو تلقین کی گئی کہ وہ ہمیشہ علم میں اضافہ کی دعا کریں۔ نمبر4)عالمگیراخوت:اسلام اونچ نیچ کے امتیاز ات ختم کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں -فرمان الہی ہے۔ ترجمہ : بے شک تمام مومن بھائی بھائی ہیں۔آنحضورصلی علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا:اللہ کے بندوں تم سب بھائی بھائی بن جاؤ معاشرے میں تعلقات کو بگاڈنے اور دلوں میں کدورت پیدا کرنیوالی غیبت خیانت اورغط بیانی ہے۔ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔وہ اس سے خیانت نہیں کرتا,غلط بیانی نہیں کرتا ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی عزت مال اور خون حرام ہے۔نیز ارشاد فر مایا یحنی تمام مخلوق خداکا کنبہ ہےاورہمدردی کا مستحق ہے۔ اورفرمایا مسلمان شفقت باہمی مروت اودہمدردی میں ایک جسم کی مانند ہے۔اگرعضوبیمار ہوتوتمام جسم بے خواب اوربخار آلود ہے۔ایک مسلمان کی تکلیف تمام ملت اسلامیہ کی تکلیف بن جاتی ہے۔اسلامی تہذیب میں عبادت یا ذکر الہی کاتصور اسی جامعیت کا علمبردارہے۔