ایک بادشاہ اپنے وزیروں کیساتھ کشتی میں کسی سفر پہ جا رہا تھا… راستے میں عصر کی نماز کا وقت ہوا تو کشتی دریا کے کنارے لگا کر وضو کرنے لگا… وضو کرتے ہوئے اچانک اس کا وضو والا برتن پانی میں گر گیا… بادشاہ نے وزیروں کو آواز دی… اور کہا کہ اسکا وضو والا برتن پانی میں گر گیا ہے… ایک وزیر نے پوچھا… بادشاہ سلامت!! برتن کس جگہ پہ گرا ہے ؟
بادشاہ نے اپنی ہیرے کی قیمتی انگوٹھی اتاری اور پانی میں پھینک کر کہا کہ اس جگہ پہ گرا ہے… وزیر نے اسی جگہ دریا میں چھلانگ لگا دی اور برتن لے کر باہر آ گیا… وزیر جب برتن باہر لے آیا تو برتن میں جھانک کر حیران ہو گیا کہ بادشاہ کی انگوٹھی اسی برتن میں پڑی ہے…وہ حیران و پریشان ہو کر بادشاہ کو دیکھنے لگا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا… بادشاہ سلامت آپکے اس غلام نے کئی سالوں تک آپکی خدمت کی ہے.. اب میں بوڑھاپے کے قریب ہوں اور مزید آپکی خدمت کرنے سے قاصر ہوں….چنانچہ اب میں آپ سے رخصت چاہتا ہوں.. بادشاہ نے وزیر کو بہت روکا لیکن وزیر کے بے حد اصرار پر بالآخر بادشاہ نے اس سے کہا کہ ٹھیک ہے اگر تم جانا چاہتے ہو تو چلے جاو…
وزیر اسی وقت بادشاہ کو خیرباد کہہ کر کشتی سے اترا اور جنگل کی طرف چل دیا… بادشاہ بھی اپنی کشتی پہ سوار ہو کر آگے کی طرف چل دیا… کافی دور جانے کے بعد یکایک دریا میں سیلاب اٹھا اور کشتی غوطہ کھا کر الٹ گئی… بادشاہ دریا میں ڈوبنے ہی والا تھا کہ اسکے ہاتھ میں ایک لکڑی کا تیرتا صندوق آ گیا بادشاہ اس صندوق پر بیٹھ گیا… صندوق بادشاہ کو لے کر تیرتا ہوا کئی میل دور ایک انجان بستی کے ساحل پہ جا لگا… بادشاہ نیچے اترا اور اس بستی میں چلا گیا-بھوک اور پیاس سے بادشاہ کا حال برا تھا چلتے چلتے اچانک بادشاہ کی نظر ایک شخص پر پڑی جو اپنی ریڑھی پر بھنے ہوئے چنے بیچ رہا تھا… بادشاہ اس شخص کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ میں یہاں مسافر ہوں میں کشتی میں سفر کر رہا تھا کہ یکایک سیلاب آیا اور میرا تمام سازوسامان اور اشرفیاں دریا میں بہہ گئی… بڑی مشکل سے جان بچا کر ادھر پہنچا ہوں اب میرے پاس کھانے کو کچھ نہیں… تمہارا احسان ہو گا کہ کچھ چنے کھانے کو دے دو؟؟ بادشاہ کی حالت دیکھ کر اس شخص نے کچھ چنے بادشاہ کو دے دیے…
اور ساتھ ہی کہا کہ اگر تم روزانہ جنگل سے لکڑی کاٹ کر مجھے لا دو تو میں اسکے بدلے تمہیں بھونے ہوئے چنے دے دیا کروں گا…. بادشاہ کو اس انجان بستی میں اپنا پیٹ پالنے کا کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آرہا تھا چانچہ اس نے یہی کام شروع کر دیا وہ رات اسی چنے والے کی کٹیا میں سوتا اور صبح اٹھ کر جنگل کی طرف نکل جاتا اور دن بھر کی مشقت کے بعد لکڑیاں کاٹ کر اس چنے والے کو دے دیتا…. اسی حالت میں کئی سال گزر گئے…ایک دن بادشاہ حسب معمول جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر آرہا تھا کہ راستے میں ایک بھنگی اپنا غلاظت سے بھرا ڈبہ اٹھاے جا رہا تھا جیسے ہی بھنگی پاس سے گزرا تو بادشاہ کی لکڑیاں بھنگی کے ڈبے کو لگی اور وہ ڈبہ بادشاہ کے اوپر گر گیا ڈبہ گرنے کی وجہ سے بھنگی نے اور پاس سے گزرنے والوں نے بادشاہ کو پکڑ لیا اور اسکی خوب درگت بنائی… اور ڈبے میں بچی ہوئی غلاظت بھی اسکے اوپر انڈیل دی… بادشاہ مار کھا کر دوبارہ اپنی لکڑیاں اٹھا کے منزل کی طرف چل دیا…
چلتے چلتے اچانک اسے شاہی لباس میں ملبوس کچھ آدمی اور گھوڑے نظر آئے… بادشاہ کو اندازہ ہوا کے اس سلطنت کا بادشاہ گزر رہا ہو گا… جب وہ شاہی گھوڑے قریب سے گزرے تو مفلوک الحال بادشاہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ وزیر جو اسے راستے میں چھوڑ گیا تھا وہی بادشاہ بنا شاہی سواری پہ جا رہا ہے… وزیر نے ایک نظر اس مفلوک الحال بادشاہ کو دیکھا اور بنا رکے اپنے محل کی طرف چل دیا…محل میں پہنچ کر اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کے اس شخص کو پکڑ کر دربار میں پیش کیا جائے… سپاہیوں نے حکم کی تعمیل کی اور اس بادشاہ کو پکڑ کر دربار میں پیش کر دیا… وزیر جو اب بادشاہ بنا کھڑا تھا سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے نہلا کر عمدہ لباس پہنایا جائے… جب اسے نہلا کر اور عمدہ لباس پہنا کر سپاہیوں نے دربار میں پیش کیا تو وزیر نے بادشاہ کو دیکھ کر کہا کہ بس ثابت ہوا کہ
”ہر عروج کو زوال ہے ”
بادشاہ سلامت جس دن آپ نے اپنی قیمتی انگوٹھی پانی میں پھینکی تھی اس دن میں بہت حیران ہوا اور اس سے زیادہ حیران و پریشان میں اس بات پر ہوا کے وہ انگوٹھی اسی برتن میں جا گری…. اس دن میں سمجھ گیا تھا کہ بادشاہ اپنے عروج کی انتہا پر ہے اور مجھے یقین تھا کہ اس قدر عروج کو اب زوال عنقریب ہے.. چنانچہ اسی لیے میں آپکو ادھر ہی چھوڑ آیا… اور آج آپ زوال کی انتہا پر کھڑے ہیں اس لئے عروج اب آپکا منتظر ہے… اسکے بعد وزیر نے بادشاہ کو گھوڑے اور تحائف دے کر اپنی سلطنت کی طرف روانہ کر دیا……