جس سے کہ مغرب کا اصل خمیر اٹھا ہے یونانی فلسفہ و افکار کے ساتھ بنی الاصفر ایک خاص تہذیبی نسبت رکھتے ہیں بلکہ اس پر کچھ اس انداز کا فخر کرتے ہیں کہ گویا عقل و شعور اور فکر و دانائی کا استعمال تاریخ انسانی کے اندر فلسفہ یونان کی ہی چھوڑی ہوئی یاد گار ہے اور پوری انسانی دنیا ذہن کی غذا پانے کے معاملہ میں صرف اور صرف اسی پے انحصار کرنے کے لئے آخری حد تک محتاج ہے دوسرے لفظوں میں عقل و منطق کا استعمال مغرب کے بڑوں کے سوا دنیا کے اندر آج تک کسی کے آبا نے گویا کیا ہی نہیں۔
جیسا کہ شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ کے قول سے اس بات کی تائید ہوتی ہے یونانی فلسفہ کی ترقی و افزودگی جس پر مغرب اتراتا ہے اس زمانہ سے تھوڑی بعد ہوتی ہے جب عرض شام و بیت المقدس کے اندر نبوتوں کا تانتا باندھ دیا گیا تھا یعنی پیدائش مسیحؑ سے چند صدیاں بیشتر کا زمانہ جو کہ موسیٰؑ کے بہت بعد آتا ہے جب کہ قرآن پاک میں واضح کیا گیا ہے کہ ارض شام و فلسطین میں اس دور کے اندر انبیاء کی ایک بہت بڑی تعداد معبوث کی گئی تھی یونان کے فلاسفہ کی ایک تعداد ایسی رہی ہے جو بحرابیض کا حوض پار کر کے ارض انبیاء میں آتی اور یہاں دے حکمت و دانش کی خبر پاتی رہی ان میں ایسے لوگوں کا پایا جانا کوہی ایسی بات نہیں جو انبیاء پر ایمان سے مالا مال ہو کر یونان لوٹتے رہے جس سے علم و دانش کی کچھ روشنی ان کے ساتھ یورپ کے اس تاریک جزیرہ نما تک پہنچتی رہی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بحرابیض مشرق و جنوبی کناروں پر مسلسل نبوت کی اتنی قندیلیں جلیں اور تھوڑی بھی روشنی اسکے دوسرے پار نہ پہنچے جب کہ تہذیب اپنے اس نقطہ پر بہت دیر سے پہنچ چکی تھی جہاں قوموں کے درمیان بہت خوب آمدرفت ہونے لگی تھی اور علمی تبادلہ بھی بڑی کثرت سے ہونے لگا تھا۔
البتہ اس روشنی کے اندر یہ اپنی جہالت کی آمیزش بھی بہر حال کرتے رہے چنانچہ جہاں تک یونانی علوم و فلسفہ جات میں کوئی پہلو ہے خصوصاً اگر یورپ میں عقل کے استعمال اور قوائے استدلال کو پہلی بار سنجیدہ بنانےکا معاملہ ہے تو اس کا سہرا انتقال علم و حکمت کے اس عمل کو جاتا ہے جس ذریعہ ارض انبیاء رہی ہے البتہ جہاں تک ان فلاسفہ کا عقل کو بالذت بنا کر حدود انسانی سے تجاوز کر جانا ہے جو فلاسفہ یونان کا امتیاز ٹھرا تو یہ خدائی ہدایت کے بلمقابل انسانی سرکشی ہے اور دین انبیاء سے عقل اور دانش کے نام پر انسان کا وو جاہلانہ تصادم ہے جو آج بھی مغربی تہذیب کا سب سے عظیم اور پھیلا فریضہ مانا جاتا ہے۔
اللّه ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
تحریر::ملک جوہر