ہمارے معاشرے میں عموماً،ملزم جرم ثابت نہ ہونےپرمجرم ہی ہوتا ہےاور بالخصوص اگر ملزم مرد ہو اور الزام لگانے والا فریق عورت ہو تو جب تک مرد قصوروار ثابت نہ ہو جائے عورت ہمیشہ درست ہی سمجھی جاتی ہے۔ یہی سب سے بڑامخمصہ ہے جس کو اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں چونکہ عورتوں کو خصوصی اہمیت اور عزت دی جاتی ہے اس لیے یہ معاشرہ عورتوں کے معاملے میں انتہائی حساس سمجھا جاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے معاشرے کی اس غیر معمولی حساسیت سے فائدہ لینے کی خاطر عورتوں کا جنسی ہراسگی کے الزامات لگا کر ہمدردیاں حاصل کرنا ایک فیشن بن چُکا ہے۔ سیاست ہو، کھیل ہو یا شوبز ہر جگہ ہی مخصوص عورتیں اپنی صنف کا فائدہ لیتے ہوئے مردوں پر الزامات لگا کر معاشرے اور مختلف مغرب نواز این جی اوز کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ کچھ سال پہلےغیر اخلاقی میسجز کا الزام لگا کر عائشہ گلالئی نے اپنی ہی پارٹی تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور حالیہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف ایک دھواں دار پریس کانفرنس کر ڈالی تھی اور اسی بناء پر اپنی ایک الگ جماعت بھی کھڑی کر ڈالی تھی، مگر وہ الزامات بھی بے بنیاد ثابت ہوئے۔ اسی طرح گزشتہ ماہ لاہور کی حمیزہ مختیار نامی ایک لڑکی نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان اوراسٹار بابر اعظم پر جنسی زیادتی کے الزامات لگائے تھے۔ اس نے پریس کانفرنس کے علاوہ مختلف سوشل میڈیا چینلز کو بھی انٹرویوز دے کر اپنی دردناک کہانی سنائی۔ لیکن وہی حمیزہ مختیار جس نے گذشتہ سال دسمبر میں پاکستان کرکٹ کپتان اوراسٹار بابر اعظم پر شادی کے بہانےجنسی اور مالی زیادتی کا الزام عائد کیا، پریس کانفرنس کی ، عدالت سے رجوع کیا ، بابر اعظم کو بدنام کرنے کے لئے سوشل میڈیا مہم شروع کی اور کیا کچھ نہیں کیا۔
اب اس نے اپنے تمام الزامات کو واپس لے لیا ہے جو اس نے بابر اعظم پر عائد کیے تھے اور بتایا کہ بابر اعظم سے ان کا کبھی رابطہ نہیں ہوا تھا۔ یہ سب میرے دوستوں کے کہنے پر ہوا تھا۔
اب یا تو اسے یہ بیان دینے پر مجبور کیا گیا ہے یا اگر وہ قصوروار ہے تو پھر اسے اس کے غیبی فعل کی سزا ملنی چاہئے۔ کیونکہ ایک مرد کی بھی اتنی ہی عزتِ نفس ہوتی جتنی ایک عورت کی۔ عورت ہو یا مرد کسی کو بھی اپنی جنس کا ناجائز استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ایسا ہی ایک کیس میشا شفیع اور علی ظفر کا بھی عدالت میں چل رہا ہے جس میں اب میشا شفیع اپنے الزامات کو ثابت نہیں کر پا رہیں اور عدالت میں پیش بھی نہیں ہوئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف مغرب نواز این جی اوز بھی ایسی چیزوں کو زیادہ اچھالتی ہیں جسکی مختلف مثالیں می ٹو مہم اور عورت مارچ بھی ہے۔
waqai…point to b noted
G