معاشی مفتوح گرے لسٹ

In شوبز
August 05, 2021
معاشی مفتوح گرے لسٹ

“معاشی مفتوح گرے لسٹ”

انسانی تاریخ کے بڑے المیوں میں سے سب سے پہلا بڑا المیہ شاید پہلی جنگ عظیم تھا جس میں اک بڑے پیمانے پر مختلف ممالک یا یوں کہہ لیں کہ مختلف براعظموں کی مختلف قومیں اک دوسرے کے مدمقابل آکھڑی ہوئیں۔ اپنی فوجی نوعیت کا یہ تاریخ میں بڑا مقابلہ تھا جس میں اک جانب آسٹرو ہنگیرین سلطنت، جرمنی اور اس کے حامی تھے۔ جبکہ دوسری جانب الائیز ممالک تھے جن میں برطانیہ، فرانس، جاپان، روس اور اٹلی سرفہرست تھے۔ یہ پہلی جنگ عظیم بیسویں صدی کے اوائل میں شروع ہوئی اور تقریباً پانچ سال تک جاری رہی جس کے نتیجے میں برطانیہ اور اس کے حامیوں کو فتح حاصل ہوئی جبکہ آسٹرو ہنگیرین سلطنت اور اس کے حامیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

جنگ کے خاتمے پر مختلف نئے اصول وضع کیے جاتے ہیں جس میں فاتح قوانین اور ضوابط طے کرتے ہیں اور مفتوح ان قوانین کو ہر حال میں اپنے اوپر لاگو کرتے ہیں چاہے اس میں ان کو ہزیمت ہی کیوں نہ اٹھانی پڑے۔ خیر مفتوح ممالک پر طرح طرح کی پانبدیاں لگائیں گئیں جن کی ہزیمت اک اور بڑے تصادم کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز کے نام سے پہلی بڑی تنظیم معرضِ وجود میں آئی جس کا بنیادی مقصد آنے والے دور میں ایسے کسی بڑے تصادم کو روکنا تھا۔ اس تنظیم کے بنانے والے کوئی اور نہیں وہی تھے جو پہلی جنگ عظیم کے فاتح تھے اور یہی ممالک لیگ آف نیشنز کے مستقل ممبز بنے۔ اب آنے والا دور ان ممالک کا تھا۔ دنیا کے بڑے بڑے فیصلوں میں انکا ہاتھ تھا۔ آپ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ اک فاتح ممالک کا گروپ اک تنظیم بناتا ہے تاکہ آئندہ کوئی ایسی لڑائی نہ ہو سکے لیکن خود ہارنے والے ممالک پر سخت قسم کی پانبدیاں عائد کر رہا ہے۔ خیر 1920 میں لیگ آف نیشنز بنی اور فرانس، انگلینڈ، جاپان اور اٹلی اس کے مستقل ممبرز بنے۔ سوویت یونین کافی دیر بعد اسکا ممبر بنا جس کو بعد میں اس سے نکال دیا گیا۔ امریکہ نے اس تنظیم میں شمولیت ہی اختیار نہیں کی۔ یہ تنظیم اپنے مقاصد کو پورے کرنے میں ناکام ہوئی جسکی سب سے بڑی مثال دوسری جنگ عظیم تھی۔ لیگ آف نیشنز جب آئندہ تصادم کو روکنے میں ناکام ہوئی تو اس کا وجود ختم ہو گیا۔

دوسری جنگ عظیم میں پھر اک جانب الائیڈ فورسز تھیں جن میں اس بار انگلینڈ، امریکہ، روس وغیرہ نمایاں تھے جو فاتح کہلائے۔ جبکہ دوسری جانب اب کی بار آسٹرو ہنگیرین سلطنت جو کہ اب ٹوٹ چکی تھی کی جگہ جرمنی، اٹلی اور جاپان وغیرہ نمایاں ممالک تھے جن کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اب کی بار پھر فاتح ممالک اکٹھے ہوئے اور امن قائم کرنے کے لیے UNO کے نام سے اک نیا ادارہ قائم کیا گیا جو کہ ہنوز قائم و دائم ہے۔ اس کا بنیادی مقصد بھی لیگ آف نیشنز کی طرح آئندہ تصادم کو روکنا تھا۔ اس میں بھی فاتح ممالک نے نئے دنیاوی طور طریقے متعارف کروائے۔ مفتوح ممالک اب کی بار بھی ہزیمت سے دو چار ہوئے۔ اس نے بھی فاتح ممالک میں سے پانچ ممالک مستقل ممبرز کے طور پر اپنائے جن میں امریکہ، روس، انگلینڈ، فرانس اور چین شامل ہیں۔ اس بار تو انہوں نے کمال ہی کر دیا کہ ساری دنیا کی طاقت اک جانب اور ان پانچ میں سے اک ملک کی طاقت اک برابر کر دی جس کو عرف عام میں ویٹو پاور کا نام دیا جاتا ہے۔

اس دوسری جنگ عظیم سے ان بڑے بڑے طاقتور ممالک نے اک بات تو ذہن نشین کر لی کہ ڈائریکٹ لڑائی میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔ لہذا اب کی بار ان ممالک نے اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے دنیا کو اپنے شکنجے میں لینے کے لیے نئے ادارے بنائے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے انہوں نے سبق حاصل کر لیا تھا کہ دشمن ملک چاہے جتنا بھی کمزور کیوں نہ ہو جنگ میں وہ آپ کو بھی خوب نقصان پہنچا جاتا ہے لہذا لڑائی میں کوئی فائیدہ نہیں جسکی حالیہ مثال امریکہ کا افغانستان سے انخلاء ہے۔ خیر اب کی بار ڈائریکٹ جنگ کی بجائے انہوں نے ان ڈائریکٹ جنگ کی پالیسی اپنائی۔ اس بار انہوں نے ترقی پزیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک کو اپنی معاشی چال میں پھنسانے کی تیاری کی جس کی خاطر آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بینک کو قائم کیا گیا۔ اگر آپ انکی تاریخ میں جا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ UNO, IMF اور ورلڈ بینک تقریباً ایک ساتھ ہی معرضِ وجود میں آئے۔ اس دفعہ پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، ارجنٹائن، میکسیکو، فلپائن اور سری لنکا جیسے ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک کو ٹارگٹ کیا گیا۔

ان ممالک کو اپنی ایسی معاشی چالوں میں پھنسایا گیا جس کا جال دن بدن گھنا ہوتا چلا گیا جس میں جو کوئی ملک بھی پھنسا وہ اس جال میں دھنستا ہی چلا گیا۔ پاکستان بھی ترقی پزیر ممالک کی طرح آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بینک کے سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پلان کی چال کے پھندے میں پھنس گیا۔ ضیاء الحق کے دور میں تو ہمیں آئی۔ایم۔ایف اور ولڈ بینک کی جانب سے کئی بڑے بڑے پیکجز ملے جن بھی بدولت ہمیں فوجی اور معاشی مد میں ڈھیروں پیسہ ملا اور پاکستان اس جال میں ایسا پھنسا کہ پھر باہر نکلنے کا راستہ ہی بھول گیا۔ پھر آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہمیں پرانے قرضے کی قسط ادا کرنے کے لیے نئے قرضے لینا پڑے جو کہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ میں کوئی معاشیات کا ایکسپرٹ تو نہیں لیکن جو ایکسپرٹ ہے اسے ضرور پتہ ہو گا کہ واشنگٹن کنسینسز کے زیر اہتمام آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بینک نے سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام کے تحت جو لون پروگرام شروع کیے ان ساتھ کتنی مشکل ترین شرائط جڑی ہوئیں تھیں۔ جس ملک کو بھی قرضہ لینا پڑتا ہے اسے ان شرائط کو ماننا پڑتا ہے ورنہ ان کو وہ قرضہ نصیب نہیں ہو گا۔ تو میرے بھائی یہ ہے وہ ساری رام کہانی جس نے پاکستان اور پاکستانیوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ اب فاتح اور مفتوح کی تعریف بدل چکی ہے۔ اب ضروری نہیں کہ کسی سے سخت شرائط منوانے کے لیے اس کو میدان جنگ میں شکست سے دو چار کرنا پڑے بلکہ اب تو بڑے سکون کے ساتھ بغیر کسی کو پتہ چلے آپ کسی دوسری قوم کو فتح کر لیتے ہیں جسکا گر امریکہ اور اس کے حامیوں کو خوب اچھی طرح معلوم ہے۔

اب آ جائیں ذرا حالات حاضرہ پر۔ پچھلے دنوں فرانس میں فیٹف کا اجلاس جاری تھا۔ مختلف ٹیلی ویژن پروگراموں میں ہر کوئی اپنی پھکی بیچنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا۔۔کوئی کہہ رہا تھا اب تو پاکستان ہر حال میں گرے لسٹ سے باہر آ جائے گا۔ کوئی کہہ رہا تھا عمران خان نے اس ملک کو ڈبو دیا اور کوئی کچھ کہہ رہا تھا۔ اک حکمران جماعت کے حامی صحافی نے تو اخیر ای کر دی کہ فیٹف اجلاس سے پہلے ہی قوم کو خوشخبری سنا دی کہ کل پاکستان کو گرے لسٹ سے پاک کر دیا جائے گا۔ لیکن آخر کیا ہوا؟ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ یقین جانیں مجھے تو اس فیصلے سے کوئی حیرانی نہیں ہوئی کہ پاکستان نے ستائیس میں سے چھبیس پوائنٹس کو ان کی شرائط کے مطابق حل کیا لیکن پھر بھی اسے گرے لسٹ سے نہیں نکالا گیا۔ آپ وہ اچھے بچے ہو جس کو سبق یاد کر کے چھٹی نہیں بلکہ مزید سبق دیا جاتا ہے۔ پی۔ٹی۔آئی کی حکومت کو سپورٹ کرنے کی اک بڑی عوامی وجہ یہ بھی تھی کہ عمران خان عوام کو بار بار یہ باور کروا رہا تھا کہ ہم آئی۔ایم۔ایف کے پاس کبھی نہیں جائیں گے بلکہ خان صاحب تو اس کے ساتھ اک سخت شرط بھی منسوب کرتے تھے۔

خیر کوئی باشعور آدمی تو تب بھی انکی بات ماننے کو تیار نہیں تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس ملک کہ اکانومی ہی ائی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بینک کی مرحون منت ہو وہ کیسے ان کے بغیر اکیلا آگے بڑھ سکتا ہے۔ ہاں یا تو آپ کی قوم نے بہت بڑا معرکہ مار لیا ہو، ملک میں کسی نئی ڈیویلپمنٹ کی وجہ سے اچانک تبدیلی آ گئی ہو، قوم یک دم محنتی ہو گئی ہو تو سمجھ میں آسکتا کہ ہم ان اداروں کے بغیر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہماری قوم کی محنت، لگن، ایمانداری اور عظمت بھی ماشاءاللہ ہمارے سامنے ہے۔ خیر عمران خان کو آخر کار آئی۔ایم۔ایف کے ساتھ وہی روایتی ڈیل کرنا پڑی جو ضیاء الحق کے دور سے لے کر آج تک ہم کرتے آرہے ہیں اور آگے بھی ایسے حالات نہیں کہ ان سے جلد پیچھا چھڑایا جا سکے۔ لیکن اک بات ہے کہ عمران خان بذاتِ خود اس بارے میں ضرور سوچ رکھتا کہ کسی طرح ہم اس چنگل سے چھٹکارا حاصل کر سکیں۔ اس کے لیے ہمیں آج سے ہی محنت کرنا ہو گی۔ ہمیں نیک نیتی سے کام کرنا ہو گا۔ ہمیں ایمانداری سے اپنا ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ ہر فرد کو اپنے حصہ کا کام بخوبی سر انجام دینا ہوگا تو انشاء اللہ اک دن ضرور آئے گا کہ ہم اس جال کو کاٹ کر باہر نکل آئیں گے۔ اگر سنگاپور اک چھوٹی سا ملک پستیوں سے نکل کر اک معاشی ٹائیکون بن سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟ اگر ترکی ان چنگلوں سے آزاد ہو سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں۔ ابھی ہم معاشی مفتوح ہیں اور ہمیں فاتح بننا ہے اور اگر کوئی حکمران نیک نیتی سے کام کرے گا تو وقت دور نہیں کہ ہم فاتح ہوں گے۔

شوکت علی۔۔۔
alishoukali45@gmail.com