بد عنوانی اور ہمارا معاشرہ

بد عنوانی اور ہمارا معاشرہ

بد عنوانی اور ہمارا معاشرہ

بد عنوانی یا کرپشن ایک بہت وسیع اصطلاح ہے۔ اس کے دائرہ کار میں ہر وہ چیز آتی ہے جو معاشرے میں اخلاقی اور قانونی طور پر ناجائز سمجھی جاتی ہے۔ اپنے جائز اختیارات سے تجاوز کرنا یا ان کا غلط استعمال، اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرنا یا ان میں کوتاہی کرنا، کسی کو قانون سے بچنے کے لیے چور دروازہ فراہم کرنا اور کسی دوسرے کا حق چھیننا بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے۔

بدعنوانی کے پیچھے بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں؛ جن میں جائز کاموں کی راہ میں رکاوٹ، وسائل کی کمی اور کھپت میں اضافہ، احتساب کا نہ ہونا، بے روزگاری، افراطِ زر، مادہ پرستی اور لالچ سمیت کئی چیزیں شامل ہیں۔ بدعنوانی صرف مالی مجبوریوں اور سماجی بقا کے لیے ہی نہیں کی جاتی بلکہ اس کے پسِ منظر میں کئی نفسیاتی وجوہات بھی شامل ہو سکتی ہیں۔ جب ایک بار اس کی لت پڑ جائے تو پھر جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے اور آدمی بلا ضرورت بھی عادتاً کرپشن کرنے لگتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بدعنوان افسر ایمانداروں کی بہ نسبت زیادہ تیزی سے ترقی کرتے ہیں کیوں کہ وہ اعلٰی حلقوں میں اپنی پہچان بنا لیتے ہیں۔ بقولِ شاعر :

تم ترقی کرو گے تیزی سے
تم روانی سے جھوٹ بولتے ہو

بدعنوانی کی لا تعداد اقسام ہیں؛ جن میں سب سے مشہور قسم رشوت ہے۔ کسی غیر قانونی کام کو قانونی حیثیت دلانے کے لیے رشوت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں رشوت ستانی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ کسی بھی ادارے میں بیٹھا افسر آپ سے جائز کام کے لیے بھی “چائے پانی” کے نام پر رشوت لینا اپنا قانونی حق سمجھتا ہے۔ یہ رجحان پاکستان کی مشکلات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے؛ کیوں کہ کرپشن کی وجہ سے لوگوں کا حکومت اور اداروں پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں حکومت کو ٹیکس کا مطلوبہ ہدف حاصل کرنے میں مشکل پیش آتی ہے جو ملکی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس 2020 کے مطابق پاکستان کا سکور 31/100 ہے جو کہ ہمارے لیے ایک شرمناک بات ہے۔

ہمارے ایک ٹیچر کے مطابق :”پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لوگ کام نہ کرنے کی تنخواہ، جب کہ کام کرنے کی رشوت لیتے ہیں”۔

کسی بھی محکمے میں چلے جائیں، آپ کا جائز کام بھی تب تک نہیں کیا جائے گا جب تک آپ افسران کی جیب گرم نہیں کرتے۔ نوکری حاصل کرنے کے لیے رشوت، جیل میں قیدیوں سے ملنے کے لیے رشوت، لائسنس حاصل کرنے کے لیے رشوت، بجلی اور گیس کے لیے رشوت، اور تو اور پاکستان میں مرنے والوں کی تدفین کے لیے قبر کی جگہ بھی رشوت کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ بقولِ شاعر :

نہیں ہوتی وہاں رحمت خدا کی
نہ ہو وُقعت جہاں صِدق و صفا کی
ہوئے رشوت کے آگے سَر نِگوں سب
مثالیں دے رہے تھے کربلا کی

حقیقت یہی ہے کہ ایک معمولی مزدور سے لے کر حاکم بالا تک ہر آدمی کرپشن کرتا ہے۔ عموماً لوگ کرپشن کو امراء اور بادشاہوں سے جوڑتے ہیں لیکن در حقیقت ہر وہ شخص کرپشن کرتا ہے جسے موقع ملتا ہے۔ بحثیتِ قوم یہ زہر ہمارے اندر سرایت کر چکا ہے۔ فٹ پاتھ پر کھڑے ایک پھل فروش کو دیکھیں تو اس خوبصورت اور عمدہ پھل سامنے ترتیب دیے ہوتے ہیں اور گلے سڑے پھل نیچے چھپا کے رکھے ہوتے ہیں؛ جب کہ عمدہ پھلوں کے نرخ پر ہی گلے سڑے اور خراب پھل بھی نظر بچا کر بیچ دیتا ہے؛ یہ بھی بدعنوانی ہے۔ سکولوں کالجوں میں پڑھنے والے اکثر طلباء سارا دن وقت گزاری کے بعد لوٹ آتے ہیں۔ ان پر ملک و قوم کی جو سرمایہ کاری ضائع جا رہی ہے اس کا رتی برابر خیال نہیں رکھتے۔ یہ بھی بدعنوانی ہے۔ آن لائن چیزیں فروخت کرنے والوں کا خوبصورت مال دکھا کر گھٹیا چیز بیچنا بھی بدعنوانی ہے۔ دفاتر میں خود حاضر نہ ہو کر حاضری لگوا لینے والے ملازمین بھی کرپشن کے مرتکب ہوتے ہیں۔ غرض بدعنوانی کسی ایک طبقے کی میراث نہیں ہوتی؛ لیکن ملک کو سب سے زیادہ اور براہ راست نقصان حکامِ بالا کی کرپشن سے پہنچتا ہے۔ یہ وہ ناسور ہے جو ملک کی جڑیں کھوکھلی کرتا ہے۔ جوہر سیوانی نے کیا خوب چوٹ کی ہے :

نمازیں بھی ادا ہوتی رہیں اُن کی مگر جب بھی
مِلی رشوت تو حاکم نے چھپا کر جیب میں رکھ لی

بدعنوانی صرف قانونی طور پر ہی جرم نہیں بلکہ یہ قرآن و سنت کے مطابق بھی ممنوع ہے اور اس پر لعنت کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں باری تعالیٰ فرماتے ہیں؛ جس کا مفہوم ہے : “اور ایک دوسرے کا ناحق مال نہ کھاؤ، نہ حاکموں کواس وجہ سے رشوت دو تا کہ کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے لے کر کھا سکو” اسی طرح نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم ہے : “رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں”رشوت ستانی اور بد عنوانی کے سد باب میں قانون نافذ کرنے والے ادارے، قومی احتساب بیورو اور اینٹی کرپشن خاطر خواہ اقدامات کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ کوششیں اس وقت تک کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکتیں جب تک عدالتی اصلاحات نہ کی جائیں۔دلاور فگار کا ایک قطعہ ہمارے عدالتی نظام پر بہت بڑا طنز ہے

Also Read:

این ای ڈی یونیورسٹی نے 100 سالہ تاریخ میں پہلی بار نابینا طالب علم کو ڈگری سے نوازا۔

 

حاکمِ رشوت ستاں فکرِ گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت، چُھوٹ جا
میں بتاؤں تجھ کو تدبیرِ رہائی مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چُھوٹ جا

پاکستان میں قوانین موجود ہیں لیکن پاسداری ندارد۔ اس پہ مستزاد یہ کہ ہمارے عدالتی نظام میں لا تعداد خامیاں ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اول تو ملزم قانون کی گرفت میں ہی نہیں آتے اور اگر آ بھی جائیں تو جلد چھوٹ جاتے ہیں۔ ہمیں معاشرے کو بدعنوانی جیسے موذی مرض سے پاک کرنے کے لیے سب سے پہلے عدالتی نظام کو بہتر کرنا ہوگا اور قانون کی عمل داری کو یقینی بنانا ہوگا۔ دیہاڑی دار مزدور کی اجرت میں اضافہ کرنا ہوگا اور اسے ضروری سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔امیر اور غریب کے لیے یکساں احتساب کو فروغ دینا ہوگا۔ کرپشن کی روک تھام کے حوالے سے عوامی شعور اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ خود احتسابی سے کام لیں تو اس پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ بقولِ شاعر:

شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

 

حسیب اقبال