ارے زرینہ، تمہاری بہو کہیں نظرنہیں آرہی؟
زرینہ کی پڑوسن نادیہ نے پوچھا تو زرینہ کو تو جیسے موقع مل گیا بہو کی برائیاں کرنے کا، کہنے لگی:
ارے ہوگی اپنے کمرے میں . سارا دن بس یہی تو کام ہے ، نہ کام کی نہ کاج کی بس زبان چلوا لو اس سے . الله ایسی بہو کسی کو نہ دے. زرینہ اس بات سے بےخبر بول رہی تهی کہ اس کی بہو ، انعم ساتھ والے کمرے میں اس کی ساری باتیں سن رہی ہے .اگر زرینہ سیر تهی تو انعم بهی سوا سیر تهی . وہ ساس کے منہ سے اپنی بے عزتی برداشت نہ کر سکی اور فوراً ہی جا کر ساس کے ساتھ ساتھ پڑوسن کو بهی کهری کهری سنا دیں. بہو کی تیز زبان کے آگے زرینہ کو چپ ہونا پڑا اور نادیہ آنٹی بهی منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوے چلی گئ .
انعم نے کمرے میں جا کر سامان سمیٹا اور میکے جانے کی تیاری کرنے لگی .ساس نے بهی نہ روکا کیوں کہ یہ تو روز کا معمول بن چکا تها . انعم جب میکے پہنچی تو اس کا بهای ڈاکٹر عمران اور بهابهی شازیہ اسے دیکهتے ہی سمجھ گئے کہ وه ایک بار پهر جهگڑا کر کے آئ هے.
بهائ کے سمجهانے پر اسنے صاف جواب دیا بولی: میں اس گهر میں اس وقت تک نهیں جاؤں گی جب تک اسلم کی ماں اس گهر میں موجود ہے. مجھ سے ان کی کڑوی کسیلی باتیں اب برداشت نہیں ہوتیں بهائ .
بهائ بولے : یہ کیا کہ رہی هو وہ اس کی والدہ ہیں اس کے گهر میں نہیں رہیں گی تو اور کہاں رہیں گی ، تمہیں اس طرح گهر چهوڑ کر نہیں آنا چاہیے تها .یہ کہہ کر وہ کمرے سے چلا گیا .انعم بهائ کی باتیں سن کر رونے لگی مگر اس نے اپنا ارادہ نہ بدلا.
ادهر جب انعم کا شوہر اسلم گهر آیا اور اسے پتہ چلا کہ وه ایک بار پهر گهر سے جا چکی ہے تو اس نے طیش میں آکر اسے فون کیا اور کہا کہ اس دفعہ میں تمہیں لینے نہیں آؤں گا . انعم بهی اپنی ضد کی پکی تهی .
ڑاکٹر عمران اپنی بہن کا گهر بچانا چاہتا تها اس نے جب اسلم کو بتایا کہ انعم الگ گهر میں رہنا چاہتی ہے تو اسلم آپے سے باهر هو کر بولا ،
عمران بهائ میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن میں آپ کی اس بات کو ہرگز نہیں مان سکتا. میں بیوی کے لیے اپنی ماں کو نہیں چهوڑ سکتا.
یہ سن کر عمران نے اسلم سے تو دوبارہ بات نہ کی مگر اپنی بہن کو ایک بار پهر سمجهانے لگا.
اس دفعہ انعم نے اسے ایک اور دهچکا لگایا .
“بهائ آپ تو ڈاکٹر هیں ناں .کیا آپ مجهے کوئ ایسا زہر لا دیں جس سے اپنی ساس سے جان چهڑا لوں.”
عمران کو بہن سے اس بات کی بالکل امید نہ تهی اس نے بہن کو سختی سے ڈانٹا اور اٹھ کر چلا گیا.
ساری رات انعم کی بات پر غور کرنے کے بعد آخر اس نے فیصلہ کر لیا. اگلے ہی دن اس نے انعم کو ایک دوا لا کر دی اور اسے کہا کہ یہ دوا روز ساس کے کهانے میں ملا دینا اور اس دوران اپنے تعلقات درست رکهنا تاکہ کسی کو شک نہ ہو. انعم دو تین ماہ کا سن کر پہلے تو کہنے لگی کہ میں اتنی دیر انتظار نہیں کر سکتی مگر آخر مان گئ اور بهائ کی بات پر عمل کرنے لگی .
اس نے ساس کی خوب خدمت شروع کر دی .زرینہ پہلے تو اسے مشکوک نظروں سے دیکهتی مگر آہستہ آہستہ بہو کی گرویده ہو گئ .
اس بات کو ایک ماہ گزرا تها کہ ساس کی طبیعت بہت بگڑ گئ .انعم کو اپنا کام پورا ہوتا نظر آرہا تها مگر نہ جانے کیوں ساس کی حالت دیکھ کر اسے افسوس ہوتا.اور پهر ایک دن انعم ساس کے لیے کهانا بنا رہی تهی کہ اسے ڈراینگ روم سے نادیہ آنٹی کی آواز آئ .وہ اس کی ساس سے ایک بار پهر اس کے بارے میں پوچھ رہی تهیں .مگر اس دفعہ ان کا جواب سن کر انعم کی آنکهوں میں آنسو آگءے . وہ کہہ رہی تهیں : ارے بہن، ایسی تبدیلی آگئ ہے میری بہو میں . اب تو بیٹی کی کمی محسوس نہیں هوتی .
الله ایسی بہو سب کو دے.
انعم کو اپنے گناه کا شدت سے افسوس ہونے لگا اس نے فوراً جا کر وہ زہر کی ڈبیا پهینک دی .
بهائ کو فون کیا اور کہا کہ اس زہر کا کوئ تریاق دے دیں .بهائ کی بات سن کر انعم کی جان میں جان آگئ .
بهائ نے اسے بتایا کہ اس ڈبیا میں کوئ زہر نہیں بلکہ سادہ پانی تها .اور انہوں نے اسے راہ راست پر لانے کے لیے یہ کهیل کهیلا اور ساته ہی بهائ نے دل و جان سے آیندہ ساس کی خدمت کرنے کی نصیحت بهی کی.
انعم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ساس کے لیے کهانا بنانے لگی مگر اس بار فرق نیت کا تها .اس دفعہ کهانے میں خلوص کی چاشنی تهی. وہ جسے زہر سمجھ رهی تهی وہ اس کی زندگی کو میٹها کر گیا تها اس نے مسکراتے ہوے باورچی خانے کی کهڑکی سے ساس کی طرف دیکها اور اپنے کام میں مصروف هوگئ….
ختم شد
gudd effort…