عام طور ہمارے ہاں سیاست کا لفظ دھوکا٫جھوٹ اور منفی طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور جب کوئی کسی کو دھوکا دیتا ہے یاجھوٹ بولتا ہے تو سامنےوالا کہتاہے یار میرے ساتھ سیاست مت کھیلو یا فلاں بندہ بڑا سیاسی ہے۔ یہ سیاست کا تصور بڑا گمراہ کن اور غلط ہے سماجی سائنس کے مطابق سیاست کا مطلب اختیار و اقتدار حاصل کرنا اور اس اختیار کو عوامی فلاح کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے سیاست اور جمہوریت لازم وملزوم ہیں جدید جمہوری ریاست کاتصورسب سے پہلے افلاطون نے دیا اور پھر پہلی جدید جمہوری حکومت کرامویل کی قیادت میں برطانیہ میں قائم ہوئی اس برطانوی طرز پر ساری دنیا میں جمہوری حکومتیں قائم ہونا شروع ہوئیں جو اب بھی جاری ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرامویل کون تھا اور اس کو کیا مسلہ تھا کہ اس نے برطانوی قدیم حکومتی ڈھانچے کو نکال باہر کیا اور جمہوری حکومت قائم کردی ۔ کرامویل ایک سرمایہ دار تھا برطانوی بادشاہ نے جب صنعتکاروں پہ بھاری ٹیکس لگائے تو کرامویل جو وزیراعظم بھی تھا نے مخالفت کردی اور مزدوروں کو ساتھ ملا کر بادشاه کے خلاف مزاحمت کا آغاز کردیا اور آخرکار بادشاہ کو گھٹنے ٹیکنے پڑے نا صرف ٹیکس کا خاتمہ ہوا بلکہ بادشاہ کو تمام اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کرنے پڑے ۔ سرمایہ دار اپنےمفادات کے تحفظ کے لیے سیاست کرتا ہے جاگیردار اپنے فائدے کےلیے جبکہ مزدور کسان اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سیاست کرتے ہیں یہاں تک افسر شاہی اپنے اختیارات کو لامحدود کرنے کے لیے سیاست کرتی ہے ۔ پاکستان میں اس وقت حکمران طبقہ آپس میں دست وگریباں ہے حکومت میں بھی سرمایہ دار اور جاگیردار ہیں جبکہ پی ڈی ایم بھی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں پہ مشتمل ہے سب اپنے مفادات کے لیے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں اس کا نتیجہ کرامویل والا نکلتا ہے یا کوئی اور اس کا فیصلہ وقت کرے گا لیکن ایک بات تو طے ہے کہ عام لوگ سیاست سے بیزار کردیے گئے جس کی وجہ سے پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت سماجی سائنس کے اصولوں پر موجود ہی نہیں۔ سیاسی جماعت ایک ایسی تنظیم کو کہا جاتا ہے جو کسی منشور پر متفق لوگوں کی تنظیم ہو اور ہرکارکن چندہ دے چاہے دس روپے ہی کیوں نا ہوں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں کئی گروہ تو موجود ہیں جو سیاست کرتے ہیں پر سیاسی جماعت کوئی بھی نہیں۔ ستر فیصد مزدور کسان عام عوام سیاست کو پسند نہیں کرتے اس لیے وہ منظم بھی نہیں ہیں پی ڈی ایم سے کسی بڑی تحریک یا تبدیلی کی امید رکھنا ایک خواب تو ہوسکتا ہے لیکن ہوسکتا اس تحريک کا نتیجہ بھی وہی نکلے جو پہلے نکلتا ہے بہر حال سیاسی طالب علم کی حثییت سے مجھے پی ڈی ایم کی کامیابی بھی چہروں کی تبدیلی تک ہی نظر آتی ہے اس لیے پاکستان میں بسنے عام لوگوں کو اپنی سیاسی جماعت بنا کر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سیاست کرنا ہوگی ورنہ حکمران طبقہ تو ہمیشہ سے ہی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سیاست کرتا آرہا ہے ۔پی ڈی ایم سے زیادہ توقعات رکھنا اپنے طبقاتی شعور کو دھوکا دینے کے مترادف ہے بہرحال کرامویل طرز کی سیاسی جمہوری تبدیلی کسی معجزے سے کم نہیں ہوگی
عبدالرحمن شاہ