Skip to content

مجاہدینِ غزوہ ہند (چوتھا حصہ)

عربوں کے اسلام لانے کے بعد بھی مسلمانوں کے تجارتی قافلے شام سے لیکر چین تک بَری اور بحری راستوں سے سفر کیا کرتے تھے۔تجارت کے ساتھ ساتھ تبلیغِ دین بھی اب مسلمانوں کا ایک اہم ہدف تھا۔مشرق بعید کے تمام علاقے مثلا انڈونیشیا،ملایئشیا اور فلپائن وغیرہ کہ جہاں آج کروڑوں مسلمان بستے ہیں،وہ انہی تجارتی اور تبلیغی قافلوں کے ذریعے مسلمان ہوئے۔کوئی مسلمان فوج ان علاقوں کو فتح کرنے کیلےکبھی نہیں بھیجی گئی۔یہ تجارتی قافلے کہ جو چین سے لیکر مشرقی وسطیٰ تک سفر کرتے تھے،مسلم تہزیب کیلے معاشی شہہ رگ کی حیثیت رکھتے تھے۔اگر اس شہہ رگ پر کوئی ضرب لگتی تو اس کا اثر پوری مسلمان سلطنت پر پڑتا۔

سمندری رستے ہمیشہ سے ہی اس اہمیت کے حامل رہے ہیں۔دنیا کی تمام قومیں اپنے سمندری راستوں کےحفاظت کرتی ہیں۔اگر ہم آج دنیا کی عظیم طاقتوں کے تزویرانی کا جائزہ لیں تو ان کا ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ عالمی تجارت کے آبی راستوں پر تسلط قائم کیا جائے۔دنیا کی جو قومیں آبی راستوں پر تسلط رکھتی ہیں،وہی عالمی معیشت میں عظیم طاقتیں بن کر ابھرتی ہیں۔دنیا کے کچھ ایسے آبی راستے ہیں کہ جن پر صدیوں سے عالمی طاقتوں کا تصادم جاری ہے،مثلا نہرسوئز،آبنائےباسفورس۔آبنائےجبل الطارق،آبنائے ملاکا اور خلیج فارس وغیرہ۔ بیسویں صدی کے وسط میں کہ جب نہرسوئز کو بند کر دیا گیا تھا،تو اس وقت عالمی طاقتوں نے باقائدہ مصر پر فوج کشی کے اور مصری حکومت کو مجبور کیا کہ نہرسوئز کو دوبارہ کھولا جائے۔اسی طرح پہلی جنگِ عظیم کے دوران عالمی مغربی طاقتوں نے استنبول پر حملہ کر دیا کہ کسی طرح
آبنائےباسفورس کو اپنے قبضے میں لے سکیں۔

اسی طرح آج بھی جبل الطارق کے دونوں اطراف یورپی طاقتوں نے اپنا تسلط قائم کر رکھا ھے کہ افریقہ کے مسلمان ممالک اس بحری راستے پر کنٹرول حاصل نہ کر سکیں۔آج امریکہ اپنا بحری بیڑا لے کر خلیج فارس میں موجود تا کہ کوئی مسلمان طاقت اس پر قبضہ نا کر سکے۔ہزاروں سال سےلے کر آج اکیسویں صدی تک،یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس قوم یا قوت نے سمندرپر اپنا تسلط اور قبضہ قائم کیا،وہی پوری دنیا پر حکمرانی کرتی ہے۔بحر ہند خاص طور پر ہزاروں سال سے دنیا کی ہر تہزیب کیلے اہم ترین آبی گزرگاہ رھا ھے۔

محمد بن قاسم کی فتح سندھ کی مہم کے وقت شاہراہ ریشم کے دو بڑے راستے تھےکہ جہاں سے تجارتی قافلے چین سے باقی دنیا کی جانب نکلتے۔ایک راستہ وسطیٰ ایشیا کے راستے ثمرقند سے ہوتا ہوا ایرانی اور پھر بازنطینی سلطنتوں کی طرف جاتا تھا۔(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *