Skip to content

میں گنہگار ہوں

سب سے پہلے تمام پڑھنے والوں کو میرا پیار بھرا “سلام” ۔آج کے اس آرٹیکل میں ،میں معاشرے کی جس حقیقت کو بیان کرنے والا ہوں اس پر، نہ صرف مجھے،بلکہ اپنے آپ کو انسان اور مسلمان کہنے والے ہر ایک فرد کو ضرور بل ضرور غور کرنا چاہیے۔ کیونکہ معاشرے اور قومیں اس وقت تک نہ تو انسان کہلانے کے قابل ہیں اور نہ ہی کوِئ شخص مسلمان ہو سکتا ہے۔ جو ،اپنی ذات کا احتساب نہ کرے ۔

اس حساب سے ،تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھ سمیت آج کا ہر فرد گنہگار ہے ۔کیونکہ، جب وہ کہیں ظلم ہوتا دیکھتا ہے ،کہیں ناانصافی ہوتے دیکھتا ہے۔تو اپنے فرض سے منہ موڑ کر اپنی ذات کو بچانے میں لگ جاتا ہے۔پھر چاہے، اس کی آنکھیں بند کرنے سے کوئی مرتا مر ہی جائے اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔

اس لئے، میں کہتا ہوں کہ” میں گناہ گار ہوں” آج کا انسان گناہ گار ہے ۔کیونکہ، آج یہ سب ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے۔ ناانصافی کا بول بالا ہے۔ مظلوموں کی کوئی سننے والا نہیں۔ ہاں یہ بات سچ ہے کہ آج بھی اس فریبی اورمکر کی دنیا میں چند اللہ کے بندے انسانیت کے وقار اور اس کی سربلندی کے لئے ہمہ تن کوشاں ہیں۔

مگر کیا آج کا معصوم اور مظلوم بھی واقعی مظلوم ہے یا وہ معصوم ہونے کا ڈھونڈ کر رہا ہے۔ جی ہاں، ایسے ڈھونگی اور فریبی لوگوں کی زندہ مثالیں آج ہمارے معاشرے میں اپنی جڑیں گہری کر چکی ہیں۔ تو کیا،ہمارے ان رویوں سے ہمارے معاشرے میں سدھا رآنے والا ہے؟ جی نہیں ایسا بالکل نہیں ہونے والا کیونکہ قومیں اور معاشرے مٹ جایا کرتے ہیں۔ جب اپنی” میں “اور اپنی ذات کو ہمیشہ سر بلند رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔انہیں نہ تو سروکار ہوتا ہے کسی کے احساسات اورجذبات کا۔
اسی لیے، میں کہتا ہوں “میں گنہگار ہوں”، “ہاں میں گنہگار ہوں “۔کیونکہ مجھے ضرورت ہے اپنی ذات میں موجود اچھائی کو تلاش کرنے کی۔ ضرورت ہے معاشرے کی اصلاح کی کوشش کرنے کی۔تاہم ،مجھے ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ کیونکہ، دنیاوی زندگی کی چاشنی اور لگن نے ہمیں اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ ہم نہ تو سچ کو دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی دیکھ سکتے ہیں۔ مگر ایسا کب تک چلتا رہے گا؟کیا ہمیں مرنا نہیں ہے ؟یا کیا ہم موت قبول چکے ہیں ؟اگر ایسا ہے توہم کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہم غلط راہ کےمسافرہیں۔اور کامیابی کو اپنی منزل سمجھتے ہیں۔

لہذا ،اس تمام صورتحال میں ایسا نظر آتا ہے کہ ہر فرد یہ جانتا ہے کہ” میں گناہگار ہوں “۔مگر دنیا کی لالچ میں مگن وہ بھول گیا ہے کہ غلط اطراف چل کرکبھی منزل نہیں آتی۔ آخر میں، ان الفاظ کے ساتھ آج کے آرٹیکل کا اختتام ہوتا ہے کہ ہمیں ضرورت ہے کہ ہم معاشرے کے سدھار میں اپنا ، اپنا کردار ادا کریں۔ اور اس کے لئے ہمیں اپنےاندر کو بدلنا ہوگا ۔تاکہ کسی کو یہ محسوس نہ ہو کہ “میں گناہ گار ہوں”۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *