زندہ انسان کو گو ناں گوں مسائل کا سامنہ کرنا پڑھنا ہے۔ دکھ بیماری و معاشی ، معاشرتی پریشانی لڑائی جھگڑا، عداوت، بے اولادی، بے روزگاری وغیرہ،
جس انسان کو ان جیسے مسئلوں کا سامنہ ہو تو بجائے خدا تعالیِ کی طرف رجوع کرنے کے دعا فروشوں یعنی عاملوں فقیروں اور بابوں کے پاس جاتے ہیں۔ ان کا ایک طریقہ واردات ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم تمہارا حساب کرتے ہیں۔ ان کے طریقہ واردات میں پہلا حربہ یہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے سارے حالات و واقعات پوچھ لیتے ہیں۔ کہ کون خیر خواہ اور کون خیر خواہ نہیں ہے کون گھر میں دشمن اور کون دوست ہے۔ اور کون تمہاری شادی میں راضی اور کون رضا مند تھا۔ کبھی ساس بہو کی لڑائی میں اور کبھی نندوں اور دیورانی جیٹھانی میں لڑائی کروا کر عوام سے بہت سا پیسہ بٹور لیتے ہیں بعض لوگوں کو تو یہ عامل ذہنی مریض بنا دیتے ہیں اور ساری عمر ان سے پھر پیسہ بٹورتے ہیں۔
جب ان سے سارے احوال پوچھ لیتے ہیں تو پھرحساب کرتے ہیں کہ تنہیں کسی نے کچھ کیا ہے۔ یعنی جادو، تعویز ٹونہ عغیرہ کیا ہے۔ پھر ایسے ہی ایک نام لے لیتے ہیں کہ فلاں نے کیا ہے۔ اور گھر میں پھر لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ اور انہی لڑاِوں میں کئی گھرانے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ یہ تمام باتیں ہمیں ایک سابق پیر صاحب نے بتائیں جو یہ کام کرتے تھے اور بعد میں ان کا ضمیر جاگ اٹھا اور اللہ سے معافی مانگ کر تائب ہو گئے۔
جب خدا تعالی خود قرآن مجید میں فرماتا ہے ہم مومینین کو بھی خوف، بھوک، مالوں اور جانواں میں سے نقصان کے ذریعے آزماتے ہیں۔ یہ امحانات ہوتے ہیں جن سے پاس ہو کر مومنین دینی رتبے اور ترقیات پاتے ہیں۔
یہ بات حق پر مبنی ہے لیکن جادو تعویز اور ٹونے سے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ محض توہمات ہیں۔ اور شرک کی طرف لے جانے والے ردی اعتقادات ہیں۔
مختصر یہ کہ انسان کی منفی سوچ اور مثبت سوچ کا اثر انسان کے دل و دماغ پر ہوتا ہے۔ انسان کے مثب سوچنے سے مثبت نتائیج نکلتے ہیں اور منفی سوچنے سے منفی نتائیج بر آمد ہوتے ہیں۔
پاکستان میں آئے دن ایسے بابوں اور فقیروں کو نیوز اینکر اور صحافی بے نقاب کرتے رہتے ہیں جو عورتوں اور مردوں کے دلوں میں مختلف قسم کے وہم ڈال کر ان کو اپنا مرید بنا لیتے ہیں اور پھر ان سے اپنی مرضی کے کام کرواتے ہیں اور پیسہ بٹورنے کا ایک عام پیشہ بن چکا ہے۔
نام نہاد بابوں اور فقیروں اور عاملوں کے پکڑے جانے کے باوجود عوام الناس ان کے پاس جانے سے نہیں باز آ رہے۔ اسا کیوں ہے؟ ایسا صرف اس لیے ہے کہ ہمارا معاشرہ کم تعلیم یافتہ ہے۔ ایسا کم پڑھے لکھے لوگ ہی کرتے ہیں اور ان بابوں، فقیروں اور عملوں کے چکر میں کم پڑھے لکھے اوع بےو قوف انسان ہی آتے ہیں۔
Thursday 7th November 2024 12:39 pm