آج کی میری تحریر غم صدمے اور پریشانی کے سلسلے میں ہے. جب بھی انسان کو کوئی فکر یا غم پیش آئے تو کیا کرنا چاہیے آجکل جیسے پوری قوم ہی فکر اور پریشانی میں مبتلا ہے. کوئی شخص ایسا نہیں جس کو موجودہ حالات کے تشویش ناک ہونے کی وجہ سے کوئی فکر لاحق نہ ہو. جو واقعات پیش آرہے ہیں روزانہ نہ جانے کتنی جانیں چلی جاتی ہیں.
خاص طور پر اہل دین کو علمائے کرام کو نشانہ بنایا جارہا ہے. ہر شخص سوچ رہا ہے کہ اس کی انتہا کیا ہوگی.غم اور صدمہ بھی ہے اور فکر اور تشویش بھی ہے. تو ایسے میں کیا کرنا چاہیے. میں اس کی تھوڑی وضاحت پیش کروں گی.ﷲتعالیٰ اس کو پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین.
غم اور صدمہ غیر اختیاری ہو تا ہے جب کوئی افسوس ناک واقعہ پیش آتا ہے ہر انسان کی فطرت میں ہے کہ اسے غم اور صدمہ ہوتا ہے. یہاں تک کہ غم سرورِ دو عالم نبی اکرم ﷺکو بھی پیش آئے جس کا انھوں نے اظہار بھی فرمایا. حضور نبی اکرم ﷺکے صاحبزادے ابراہیم کا جب انتقال ہوا تو آپکی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.
اور آپ نے یہ جملہ بھی فرمایا اے ابراہیم ہم تیری یاد میں غم ذدہ ہیں.
تو یہ ایک فطری چیز ہے.
ایک غم وہ ہے جس کے کرنے کی ممانعت آئی ہے.کہ انسان بیٹھا اسکو سوچ رہا ہے اور بار بار اسکا ذکر کر رہا ہے. تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جتنی بار اسکا ذکر کر یگا اتنا ہی غم بڑھے گا
اب یہ جو غم بڑھ رہا ہے یہ اپنے اختیار سے ہورہا ہے
یہ ناجائز ہے.جب موسیٰ علیہ السلام کو ان کی ماں سے جدا کیا گیا تو ﷲتعالیٰ نے فرمایا اس کا تذکرہ کرکے اس کو یاد کر کر کے اپنے غم کو بڑھاؤ مت. بلکہ ہم سے رجوع کرو . ہم اسے پیغمبر بنائیں گے.
اس میں سے ہمیں سبق یہ ملتا ہے کہ غم تو پیش آئیں گے لازمی ہو نہیں سکتا کہ زندگی بغیر غم کے گزر جائے.
جب تک زندگی ہے غم تو آئیں گے.کیونکہ زندگی دینے والے نے جب کہہ دیا کہ ہم تمہیں آزمائیں گے
اور ضرور آزمائیں گے کبھی خوف سے کبھی جان ومال میں کمی کرکے.
آج اگر ہم دیکھیں موجودہ حالات میں تو ساری چیزیں جمع ہیں. ہر وقت خوف طاری ہے کہ نہ جانے کس وقت کیا ہو جائے. کسی کی جان و مال آبرو محفوظ نہیں. اور بھوک کا اشارہ ہے معاشی بد حالی کی جانب. نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
زمانۂ آخر میں قتل و غارت بہت زیادہ ہوجائے گا
کہ معلوم نہیں ہوگا کہ کس نے قتل کیا اور کیوں کیا
ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم آزمائیں گے تھوڑا کہ یہ تکلیفیں اور غم دائمی نہیں ہو گا. ﷲتعالیٰ نے فرمایا کہ خوشخبری دے دو ان صبر کرنے والوں کو کہ جن کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں
کہ ہم ﷲہی کے ہیں اور ہمﷲہی کی طرف لوٹ کے جانے والے ہیں.
تو قارئین کرام جب بھی کوئی مشکل پیش آئے زبان سے ایک بار کہہ دیں
؛؛کہ ہم ﷲہی کے ہیں اور ہم ﷲہی کی طرف لوٹ کے جانے والے ہیں؛؛
چاہے دل رو رہا ہو. دل میں صدمہ ہو غم ہو مگر جو زبان پر شکوہ تقدیر نہ کریں. تو ان پر رحمتیں ہی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور وہی سیدھے راستے پر ہیں.اگر خوش حالی میں ﷲکا شکر ادا کر رہے ہیں اور بدحالی میں رجوع ﷲتبارک و تعالیٰ کر رہے ہیں تو اس مطلب ہے سیدھے راستے پر ہیں.
..ﷲ پاک ہم سب پہ رحم فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین..