میرے ایک دوست نے سانپ پال رکھا تھا وہ سانپ سے بے حد پیار کرتا تھا اور اسے اپنے پاس رکھتا تھا ۔محبت کی انتہا تھی ان دونوں میں آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا اور وہ سانپ بڑا ہوتا گیا ۔آخر وہ جب آٹھ فٹ کا ہوگیا تو اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا کوئی چیز نہیں کھاتا تھا ۔میرا دوست بہت پریشان کہ اچانک اسے کیا ہوگیا ہے وہ یہی سوچتا رہتا تھا ۔آخر کار دو تین دن گزر گئے لیکن اس نے کھانا شروع نہیں کیا ۔پھر میرے دوست نے اس کی کہانی مجھے سنائیں اور میں نے اسے مشورہ دیا کہ ہم کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں اس سے پوچھتے ہیں ۔
پھر ہم اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے ڈاکٹر صاحب نے جب اس کا معائنہ کیا تو ان کے ذہن میں کئی سوالات اٹھے ۔ڈاکٹر نے ہم سے پوچھا کہ یہ سانپ سوتا کہا تھا ۔میرے دوست نے جواب دیا کہ یہ میرے پاس سوتا تھا میرے ہی بستر پر ڈاکٹر نے کہا کہ سوتے ہوئے اکڑتا تو بہتر ہوگا میرے دوست نے کہا جی ہاں ایسا ہی ہے اور نہ ہی کچھ کھاتا ہے نہ پیتا اکڑتا ہی رہتا ہے ۔تب ڈاکٹر نے کہا کہ یہ کھانا پینا اسی لیے چھوڑ رہا ہے اپنے پیٹ میں جگہ خالی کر رہا ہیں کہ تمہیں پورا ہضم کر سکے ۔یہ سن کر میرا دوست کچھ حیران سا ہو گیا ۔وہ شاید یہی سوچ رہا تھا کہ جس سے میں نے اپنی زندگی میں بہت اہمیت دی جسکو بہت پیار کیا وہی میرا دشمن نکلا ۔وہ میرے سامنے تھا اور میں اسے پہچان بھی نہ سکا ۔تب میں نے اسکو حوصلہ دیا اور کھا میرے دوست یہ دنیا ایسی ہی ہے کیوں اتنا پریشان ہوتے ہو ۔دشمن ہمارے پاس ہی ہوتے ہیں
مگرہم پہچان نہیں پاتے پھر ہم نے ڈاکٹر سے اجازت چاہی اور چلے گے گھر آ کر میں نے کہا میرے یار کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کے ہم جن کہ بہت قریب ہوتے ہیں کھاتے پیتے سوتے ایک ساتھ ہی ہیں ۔لیکن ہم انکو پھر بھی نہیں سمجھ پاتے کہ انکے دماگ میں کیا چل رہا ہے ہم انکے من کو نہیں جان سکتے اور کچھ لوگ پھر ایسی چوٹ لگاتے ہیں -جو زندگی بھر سو سوچ کے مر جاتے ہیں مگر وہ جھوٹ زخم بھرتا نہیں ہیں ۔بس میں آج آپ کو یہی بتانے والا تھا کہ آپ جو بھی اپنی دوستی کرتے رشتے داروں میں بہت قریب ہے یاد رکھیے کہ آپ کے دوستوں میں کوئی آپ کا دشمن نہ ہو یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کے رشتے داروں میں آپ کے خلاف کوئی ہو جو آپ کو تباہ کرنا چاہتا ہوں اس بات کا خیال رکھیں اور سوچ سمجھ کر اپنی زندگی میں آگے بڑھے ۔ شکریہ ۔
(ناصر حنیف )