اسلام علیکم
میرا نام شہزاد بلوچ ھے میرا تعلق ملتان سے ھے۔ میرے والد صاحب ایک بزنس مین ہیں۔ میں اپ کو اپنی زندگی کی چند حقیقتیں اپنے استاد کی چند باتیں اور معاشرے کی تلخیوں کے بارےمیں بتاؤ گا۔ یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ کہانی اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ کیونکہ کہانی بنانی پڑتی ہے اور اس کی تراش خراش کرنی پڑتی ہے اور جو حقیقت ھوتی ھے وہ کسی بھی انسان کی زندگی پر گزرے ھوئے لمحات کو ظاہر کرتی ہے حقیقت کسی بناوٹ سجاوٹ کی محتاج نہیں ہوتی۔
مجھے اج بھی یاد ہے کہ جب ہم مدرسے میں پڑھنے کیلئے جاتے تھے۔ تو ہمارے والد صاحب نے ہمیں مدرسے جانے کیلئے ایک مہنگی گاڑی خرید کر دی تو جب ہم مدرسے پڑھنے جاتے تو گاڑی کو مدرسے کی پارکنگ میں کھڑی کر دیتے اور اپنے استاد کے پاس پڑھنے کیلئے چلے جاتے۔جو میرے استاد تھے وہ بڑے اللہ والے آدمی تھے ۔ ایک دن کسی آدمی نے میرے استاد سے کہا کہ تم اجکل بڑے پیسے کما رہے ہو بڑی مہنگی مہنگی گاڑیاں خرید رکھی ہیں۔ تو میرے استاد جی نے اس آدمی کی طرف دیکھا اور مسکرانے لگے ۔ اور میری طرف پڑھانے کیلئے آگے بڑھے اور مجھے کہنے لگے کہ دیکھو یہ ہوتی ہے بدگمانی ۔ اور ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ گاڑی تمہاری اور تانہ مجھے مار دیا۔ اس موضوع پہ کافی دیر با ت چلتی رہی ۔پھر میں نے استاد صاحب سے سبق لیا اور پارکنگ میں کھڑی گاڑی میں بیٹھ کر گھر کو روانہ ہوا تو گھر آتے ہوئے میرے دل میں خیال آیا اور میں نے سوچا اور پھر اس بندے کا خیال میرے دل میں ایا جس نے میرے استاد جی کو گاڑی کا تانہ مارا تھا۔لوگ علماء اور عالم دین کے بارےمیں ایسا کیوں سوچتے ہیں۔
آگر کوئی عالم کوئی بزنس یا کوئی کاروبار یا کوئی بھی کام کر ے تو اس پر ذیادہ سوال اٹھتے ہیں ایک عام آدمی کی نسبت ۔ میرے استاد تو بڑی گاڑی رکھ ہی نہیں سکتے کیونکہ ان پر بڑی گاڑی رکھنا حرام ہے؟ کیونکہ ان کا قصور یہ ہے کہ وہ ایک عالم دین ہیں ۔اگر یہ کام کوئی عام آدمی کرے تو جائز ہے اگر ایک عالم کرے تو ناجائز ۔علم جو وہ پڑھاتا ہے وہ ٹھیک ہے لیکن ایک عالم ٹھیک نہیں ہے۔ لوگ کہتے ہیں اپنے بچوں کو تو پڑھا نہیں سکتے ہمارے بچوں کو دین پہ کیسے لے انیں گے ۔ عالم دین سے غلطی ہو سکتی ہے کہ شاید وہ گھر کے اندر کمزور پڑ گئے ھوں۔ ایک عالم سے بھی غلطی ہو سکتی۔ کیونکہ ایک عالم کے پیچھے بڑا شیطان لگا ہوتا ہے ایک عام آدمی کی نسبت ۔ ایک عالم کو بھی اپنے نفس پر قابو پانا ھوتا ھے۔ شیطان انسان کو دلیل سے نہیں مارتا کیونکہ دلیل تو پختہ ھوتی ھے ۔ بلکہ شیطان انسان کو اس کی خواہش سے مارتا ھے ۔ غلطی ھو سکتی ھے ۔ کس سے نہیں ھو سکتی غلطی ؟ نفس ھے کمزور ہو سکتا ھے. نفس ھے منافق بھی ھو سکتا ھے۔ لیکن ایک عالم کا دل منافق نہیں ھو سکتا۔طالب علم ایک پیاسے انسان کی طرح ھے۔
اور استاد ایک پانی سے بھرے کنوئیں کی ماند ھے۔ ظاہر ھے ایک پیاسا اپنی پیاس بجھانے پانی کے کنوئیں کے پاس ہی اے گا۔ اب اگر کنوئیں میں تھوڑی سی خامی کیا دیکھی تو کیا کنواں ہی چھوڑ دینا چاہیے؟ انہیں مسائل میں گھری ہوئی ھوتی ھے ایک عالم دین کی زندگی ۔ لوگوں کو تو کسی پر بھی انگلی اٹھانے کیلئے ایک بہانہ چاہیے ۔ لیکن ایک عالم دین کو ان تمام باتوں کی فکر نہ کرتے ھوئے لوگوں کی اصلاح کیلئے علم کی راہ کو ہموار کرنا چاہیے۔ اور ایک عالم دین کو صبر سے کام لینا ھو گا لوگوں کی باتوں کے آگے اتنا صبر کرنا ھو گا کہ انسان یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ میرا جواب میں نہیں میری قوم دے گی ۔ میرا جواب میں نہیں بلکہ اس قائینات کا مالک دے گا ۔ ایک عالم دین کو لوگوں کی نہیں بلکہ قینات کے مالک کی فکر ھوتی ھے۔ ایک عام آدمی لوگوں کو اپنی زبان سے قائل کرنے کی کوشش کرتا ھے لیکن ایک عالم لوگوں کو اپنے علم اور اپنے عمل سے قائل کرتا ھے۔ بغاوت بھی اصولوں کے ساتھ ھو تو انقلاب پیدا کرتی ہے۔ اور اگر یہی بغاوت عالم دین اور علم کے ساتھ ھو
تو پھر سمندر کی لہروں کی طرح بغاوت کرنے والوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ھے۔جو لوگ اپنے آپ کو نہیں جانتے ۔اپنے مزاج کو نہیں جانتے۔ اپنا رویہ نہیں جانتے ، اپنا رونا ہسنا نہیں جانتے ۔ اپنا دکھ درد نہیں جانتے۔ اپنا حال اور اپنا ماضی نہیں جانتے۔ جو لوگ اپنے اندر کی ٹوٹ پھوٹ کو نہیں جانتے۔
جو عقائد نہیں جانتے جو نظریات نہیں جانتے جو احساسات نہیں جانتے۔جو جزبات نہیں جانتے۔ جسے اپنے آپ کی خبر نہیں اسے دوسروں کی کیا خبر ھو گی۔ ایسے لوگوں کو عالم دین اور علم کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔