کچھ چیزیں خاندان کی راوایت کےساتھ چلتی ہیں ہم انہیں چھوڑ نہیں سکتے امی کہتی ہے لیکن دانی تو ابھی بہت چھوٹا ہے اور کیا آسیہ رضا مند ہو جائے گی ابو کہتے ہیں ماشاءاللہ دو چارسال میں دانی باشعور ہو جائے گا اور رہی بات آسیہ بیٹی کی جو ہم کہیں گے وہ ہی کرے گی اتنے میں آسیہ چائے لے کر آ رہی ہوتی ہے دروازے میں داخل ہوتے ہی رک جاتی ہے اور چھپ کر ساری باتیں سننے لگی ابو کہہ رہے ہوتے ہیں ابھی ہم کونسی شادی کا فیصلہ کر رہے ہیں سال دو سال خموشی رہے گی بعد میں دیکھی جائے گی امی پریشان ہو کر کہتی ہے جی بہتر دیکھا جائے گا ابو کہتے ہیں دیکھنا کیا بھائی وہ ہی ہو گاجو ہم نے کیا آسیہ دروازے میں کھڑی ساری باتیں سن کر پیچھے ہٹ جاتی ہے اور پیچھے سےاما آتی ہیں آسیہ کو دیکھ کر کہتی ہے تم نے اپنے باپ کا فیصلہ سن لیا ہے آسیہ رو کر امی کو کہتی ہے ایسے کیسے ہو سکتا ہے امی ہمارے خاندان میں ایسا ہی ہوتا ہے آسیہ دانی بھائی ہے میرا چھوٹا ہے وہ مجھ سے امی مرد چاہے جتنا بھی عورت سے چھوٹا ہو لیکن رتبے میں عورت سے بڑا ہوتا ہے آسیہ روتے ہوئے امی سے یہ کہاں کا اصول ہے امی اصول صرف کتابوں میں رہ گئے ہیں امی کہتی ہے اصل زندگی میں یہی ہوتا ہے آسیہ رو کر کہتی ہے اگر میں اس رشتے سے انکار کر دوں تو امی کہتی ہے تمہارے باپ کی عزت اور خاندان کے وقار کا مسئلہ ہے ایسا کبھی بھی نہیں ہوا اور تم ایسا سوچنا بھی نہیں آسیہ غصے میں سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر چلی جاتی ہے دانی آسیہ کے پاس آکر کہتا ہے آپی آپ میرے بارے میں شاید غلط سوچ رہی ہیں آسیہ میں تمہارے بارے میں کچھ غلط نہںیں سوچ رہی تھی میں تو صرف یہ سوچ رہی ہوں کے اگر گھر والوں نے اپنی ضد پوری کرنے کی کوشش کی تو کیا ہوگا دانی آپ کو پتہ ہے نہ میں آپ کو آپی کہتا ہوں اور وہ تمام خط اب تو خالہ نے مجھے آپ کے کمرے میں بھی آنے سے منع کر دیا ہے آسیہ جانتی ہوں مجھے بھی تم سے دور رہنے کا کہا گیا ہے اسی لیے تو میں چھپ کے آیا ہوں آسیہ کہتی ہے پلیز دانی اب اس طرح رات کو میرے کمرے میں دوبارہ کبھی مت آنا کسی نے دیکھ لیا تو دانی لیکن کیوں آپ میری آپی ہو اس کے سوا نہ تو میں کسی رشتے کو قبول کر رہا ہوں اور نہ ہی میرا دل مانتا ہے آسیہ یہ تو صرف تمہاری سوچ ہے دیکھنے والے کیا کیا مطلب نکالے گے تمہیں اس بات کا اندازہ نہیں ہے دانی میں تو صرف اپنے دل کی بات کہنے آیا تھاآسیہ کر لی اپنے دل کی بات تم میری طرح اپنی زبان پر تالا لگا کر رکھو آسیہ رونے لگتی ہے اور کہتی ہے یہ وقت ہمیں کہاں پر لے کے جائے گا۔۔۔ دوسرےدن آسیہ دولہن بنی ہوتی ہے اتنے میں امی آ جاتی ہے اور آسیہ کو کہتی ہے میں جانتی ہوں یہ فیصلہ تمہاری مرضی کا نہیں ہے لیکن تم نے اپنے باپ کی عزت اور خاندان کی کے وقار کے لئےسر جھکا دیا میں تمہارا شکریہ ادا کرنے آئی ہوں بیٹا خوشی بھی دو پل کی ہوتی ہے اور غم بھی جب تم حلات کے دائرے میں بیٹھ کر اپنی زندگی گزاروگی بیٹا تو پھر ہر چیز کی عادی ہو جاؤ گی تمہیں اپنے ماں باپ سے کوئی شکوہ نہیں رہے گا جیسے اب مجھے نہیں رہا میں نے بھی اپنی شادی کی پہلی رات اپنی آنکھوں میں محبت دفن کر دی ماں باپ کی رضا کو اپنی قسمت سمجھ کر سر جھکا لیا تھا دیکھو میری زندگی بھی تو گزر رہی گئی ہے نہ بیٹا تم بھی اپنے دل کو خوابوں کا مزار بنا لو اور وہاں کسی کو پھٹکنے بھی مت دینا اپنے شوہر کو آسمان کا فیصلہ سمجھ کر قبول کر لینا کوئی معجزہ نہیں ہو گا باہر نکاح ہو را ہے یہ کہ کر امی چلی جاتی ہے اور آسیہ بیٹھ کر رونے لگتی ہے ابو دانی کے کندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے دانی کو ساتھ لے کر چلنے لگتے ہیں دانی کے گلے میں شادی کی مالا بھی ڈالی ہوتی ہے ابو کہتے ہیں دانی بیٹا تمہیں بہت مبارک ہو میں بہت خوش ہوں اور آج میرے مرحوم بھائی کی روح بھی خوش ہوگی کیوں کہ ان کی یہ خواہش تھی کہ آسیہ کو وہ اپنی بنائیں گے اور وہ خوشی میں نے پوری کر دی ہے خوش رہو بیٹا اور امی بھی کہتی ہے خوش رہو بیٹا حمزہ ہوٹل میں بہت دیر سے بیٹھا ہوتا ہے اور ویٹر کہتے ہیں اب بند کرنے کا ٹائم ہے پھر حمزہ گاڑی میں بیٹھ کر دانی کو کال کرتا ہے ہاں ہیلو دانی میں ابھی گھر میں ہی ہوں دس منٹ تک ہم لوگ نکل رہے ہیں میں ابھی انکل کے کمرے کی لائٹ بند ہونے کا انتظار کر رہا ہوں اچھا ٹھیک ہے میں کونے والی بلڈنگ میں تمہارا ویٹ کر رہا ہوں اچھا سنو جی آسیہ خوش تو ہے نا میں نے ابھی کچھ نہیں بتایا اگر بتا دیتا تو وہ ڈر کے مارے انکار کر دیتی پریشان مت ہو میں ان کو کسی بھی بہانے گھر سے باہر لے کر آؤں گا اور راستے میں بتا دوں گا آپ انہیں مجھ سے زیادہ نہیں جانتے وہ دوسروں کی خوشی کی خاطر اپنی خوشی میں زہر گھولنے سے بھی نہیں رکتی حمزہ کہتا ہے اچھا ٹھیک ہے تم لوگ جلدی پہنچو دانی آسیہ کے کمرے میں جا کر کہتا ہے دنیا کی نظر میں جو بھی ہے میں آج بھی آپ کو بڑی بہن سمجھتا ہوں اب میں نے سوچا ہے میں آپ کو راتوں رات حمزہ بھائی کے حوالے کر کے خود بھی کہیں غائب ہو جاؤں گا وہ باہر بیٹھا گاڑی میں آپ کا انتظار کر رہا ہے اتنے میں آسیہ کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں اور پھر گر جاتی ہے منہ سے خون آتا ہے ہاتھ میں ایک خط ہوتا ہے دانی وہ خط پڑتا ہے خط میں کچھ یوں لکھا ہوتا ہے دانی میرے بھائی میں تم سے کوئی بھی ایسارشتہ نہیں جوڑ سکتی جو مجھےساری زندگی تم سے نظریں نہ ملانے دے تم میری حقیقت جان گئے ہو میں تمہیں بھی اس اذیت سے نکال رہی ہوں جو نہ جانے آگے جا کر تمہارے لیے کتنی آزمائشوں کا سبب بنے گی میں نے زہر کھا لیا ہے تاکہ ہم سب کی عزتوں کا بھرم رہ جائے گا دانی آپی آ پی کہہ کر رونے لگتا ہے ۔۔۔۔ختم شد۔