Skip to content

اپنی تعریف کو سننا۔

ایک بزرگ کی بھری ہوئی مجلس میں بہت سے لوگ تعریف کر رہے تھے اور ان کی خوبیاں بھی بیان کر رہے تھے ان بزرگ نے سر اٹھایا اور تعریف کرنے والوں کو فرمایا تھا میں جیسا بھی ہوں میں اپنے آپ کو خوب جانتا ہوں ہو جو شخص کس میری خوبیاں بیان کرتا ہے وہ مجھے خوبصورت آتا ہے تجھے صرف میرے ظاہر کی خبر ہے میرے باطن کو تو جانتا ہی نہیں ہے ہے میں دنیا والوں کو اچھا نظر آتا ہوں مگر اپنے غلیظ باطن کی وجہ سے میں شرمسار ہوں مور اپنے نقش و نگار کی وجہ سے تعریف کیا جاتا ہےمگر خود اپنے پاؤں کو دیکھ کر شرمسار ہوتا ہے

سبق

اپنی تعریف سن کر بہت خوش زیادہ خوش ہونا اور اس کی تمنا رکھنا بہت زیادہ برا ہے علمائے دین فرماتے ہیں اگر لوگ مجھے اچھا سمجھنے لگ جائیں اور بذات خود میں بہت ہی برا ہوں تو یہ میرے لیے ہلاکت کا باعث ہے اور اگر لوگ مجھے برا کہیں اور اللہ کے نزدیک میں اچھا ہوا تو یہ میرے لیے بہت بہتر ہے ہے آتا ہے جو تیرے سامنے تیری تعریف کے اس اس کے منہ میں خاک ڈال دےاور قرآن مجید میں ہے جس میں کوئی خوبی نہ ہو اور وہ چاہے کہ لوگ اس خوبی کو میری طرف منسوب کریں اوراس پر وہ خوش ہو ان کے لئے دردناک عذاب ہے

اپنی بات۔

حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ ایک اپنی آب بیتی بیان فرماتے ہیں ہیں کہ میں بچپن میں بڑا عبادت گزار تھا اور شب زندہ دار تھا اللہ کی یاد کا بہت شوق رکھتا تھا ایک رات والد صاحب کی معیت میں ساری رات نہ سویا رہا اور کچھ رات سوئے رہےمیں نے والد سے عرض کی یہ کیسے لوگ ہیں ان میں سے کوئی بھی نہیں اٹھا کہ تہجد کے دو نفل پڑھ لیں ایسا لگتا ہے جیسے مرے پڑے ہیں والد صاحب نے فرمایا اس غیبت کرنے سے تو بہتر تھا کہ تو بھی سویا رہتا

سبق۔

بزرگ فرماتے ہیں نیکی کر اور کوئی کنویں میں ڈال ال میں ڈال اور اگر گناہ ہو جائے تو اس کو ہمیشہ یاد رکھ اور اللہ سے اس کی معافی کی دعا مانگتا رہے کسی کی عیب جوئی کرنے سے بہتر ہے اپنی اصلاح اور فکر میں لگا رہ اس طرح تکبر اور غرور کا خاتمہ ہوگا اسی طرح عاجزی اور انکساری کی دولت میں مالا مال کر دیا جائے گاحضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی ان لوگوں کے ساتھ ہے جو شکست دل ہوتے ہیں۔

چور اور فقیر۔

ایک چور کسی فقیر کے گھر چوری کرنے گھوس گیا بہت تلاش لی مگر کچھ نہ ملا پریشان ہو کر واپس جانے لگا تو فقیر کو پتہ چل گیا جس چادر پر سویا ہوا تھا وہ چور کی طرف پھینک دی تاکہ خالی واپس نہ جائے میں نے سنا ہے خدا کے بندے دشمنوں کا بھی دل نہیں دکھاتے مجھے تجھ سے یہ مقام کیسے مل سکتا ہے کیونکہ تیری تو دوستوں کے ساتھ بھی لگی رہتی ہے ہے مخلص کی دوستی ایسی نہیں ہوتی کے سامنے تو تعریف کرتا رہے اور پیٹھ پیچھے بڑے ایک بیان کرتا رہے

اشعار۔

سامنے مسکین بکری کی طرح اور پشت آدم خور بھیڑیے کی طرح دوسروں کے عیب تیرے سامنے بیان کرتا ہے وہ تیرے عیبوں کو بھی دوسروں کے سامنے ضرور بیان کرتا ہوگا

سبق۔

اللہ کا بندہ انسانیت کا خیر خواہ ہوتا ہے کوئی اس سے برائی بھی کرے تو وہ جواب میں اپنی شان کے مطابق بھلائی کرنے کی کوشش ہی کرتا ہے خود تنگ ہو کر دوسروں کو آرام پہنچاتا ہے اگرچہ وہ کیسا ہی ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *