عدل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی برابری کے ہیں اس کے ایک معنی یہ بھی ہے کہ کسی بوجھ کو دو حصّوں میں اس طرح تقسیم کیا جاۓ کہ ان میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ ہو. نبی کریم(صلی اللہ علیۂ وسلم)نے عدل و انصاف کا اعلی معیار قائم فرمایا کیونکہ آپ(صلی اللہ علیۂ وسلم)جانتے تھے کہ عدل و انصاف پر عمل پیرا ہو کرہی کوئی بھی قوم بنتی اور بگڑتی ہے، جن قوموں میں عدل و انصاف ہے وہ ترقی کرگئی ہیں وہاں غریب کے حقوق بھی محفوظ ہیں۔
اور جو معاشرے عدل و انصاف سے بیگانے ہیں وہاں افراتفری ہے، غریبوں اور بے کسوں کا پرسان حال کوئی نہیں،
جب آپ (صلی اللہ علیۂ وسلم)مدینہ کی ریاست کا قیام فرماتے ہیں تو آپ(صلی اللہ علیۂ وسلم) کو بحیثیت منصف مدینہ کے مسلمانوں، یہودیوں اور دیگر نے قبول کیا۔ ایک مرتبہ ایک بااثر قبیلہ کی عورت کا ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ تھا تو اس عورت کے عزیزو اقرباء نے حضرت اسامہ (رضی الله تعالیٰ عنہ) سے آپ (صلی اللہ علیۂ وسلم)کی بارگاہ اقدس میں سفارش کروائی کیونکہ حضور پاک(صلی اللہ علیۂ وسلم)حضرت اسامہ(رضی الله تعالیٰ عنہ) سے بہت محبت فرماتے تھے، لیکن آپ(صلی اللہ علیۂ وسلم)نے حضرت اسامہ(رضی الله تعالیٰ عنہ)کی بات نہ مانی اور سزا قائم رکھی اور فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ(رضی الله تعالیٰ عنہا)بھی ہوتی تو میں اس کو بھی سزا دیتا۔ آپ(صلی اللہ علیۂ وسلم)نے فرمایا کہ یاد رکھنا کہ پہلی قومیں اس لئے برباد ہوئیں کہ ان کے طاقتوروں اور کمزوروں کے لئے قانون مختلف تھے۔اگر آج ہم اپنا جائزہ لیں تو جان جاۂیں گے کہ بلکل ایسا ہی تباہی کا سامان ہم نے کر رکھا ہے، ہمارے ہاں بھی طاقتور کر لئے قانون اور ہے اور کمزور کے لئے اورطاقتور انصاف خرید لیتا ہے اور کمزور انصاف پانے سے قبل ہی ملک عدم سدھارجاتا ہے۔ ایسی کتنی ہی مثالیں موجود ہے جس میں غریب پامال ہوگۓ لیکن انصاف نہیں ملا۔
ایسے کئی اہم پہلو موجود ہیں جن پر بات نہیں ہو سکی، جن کا موازنہ ہمارے رویوں اور اعمال کے ساتھ ضروری ہے. جو کسی کےساتھ زیادتی کرکے اپنے لئے عزت چاہتا ہے ہے الله اسے اپنے انصاف کے ذریے ذلّت دیتا ہے.