جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سیاست میں بہت سے شعبات زندگی شامل ہیں۔ دین کو سیاست سے جدا کرنے کا مطلب ان تمام شعبوں کو دین سے exclude کرنا ہے۔ جب اکثر شعبے دین سے exclude ہوجائے تو دین فقد مسجد اور امام بارگاہوں تک محدود ہوجاتی ہے۔ ہمارا دین اسلام ایک مکمل ضابطہء حیات ہے جو صرف مسجدوں اور امام بارگاہوں کے لئے نہیں بنا ہے۔ ہمیں دین کو اپنے تمام امور زندگی میں شامل کرنا چاہیئے اور ایسا کرنا نا ممکن نہیں ہے کہ ہمارے سامنے رسول اور آل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ آج ہماری پسماندگی کی اصل وجہ دین سے دوری ہے لیکن بعض سادہ لوگ اسلام سے attachment کو پسماندگی سے تعبیر کرتے ہیں اور دنیائے غرب کی مثالیں پیش کرتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ مسلمانوں کی go lden ageمیں یورپ زوال اور پسماندگی کا شکار تھا۔ مسلمانوں کے سنہرے دور میں ترقی کا راز دینی لگاو، دین کی تمام امور زندگی میں شمولیت اور راست بازی ہے۔ میرے خیال میں سیکولرازم کی پروموشن(وہ بھی ایک اسلامی ریاست کے اندر) خود کو علامہ اقبال سے زیادہ عقلمند claim کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ہم قیام پاکستان کا مطالعہ کرے تو ہمیں بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ پاکستان بنانے کے پیچھے main reason یہ تھی کہ ایک ایسے اسلامی ریاست کا حصول ہو جہاں مسلمان آذادی کے ساتھ امور زندگی میں اسلامی احکامات کی پیروی کرسکے قیام پاکستان کے بعد اس بات کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس کی جارہی تھی کہ کم سے کم مدت میں 1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی ترمیم شدہ عبوری دستور کو ہٹا کر ملک کیلئے ایک مستقل دستور بنایا جائے۔ چونکہ پاکستان کی جنگ لا الہ الا اللہ کے نعرے پر لڑی گئی تھی لہذا پاکستانی عوام اپنے ملک کیلئے اسلامی دستور چاہتے تھے۔ بد قسمتی سے دستور ساز اسمبلی میں بہت سے لوگ لادینی کے نظام کے حامی تھے۔ قائداعظم کی شخصیت، علماء کی قیادت اور عوام کے جذبہء ایثار نے اسلام دشمن سیاستدانوں کی کوششوں کو ناکام بنا دیا جس کے بعد قرآن و سنت کی بنیاد پر وقت کے وزیراعظم نواب زیادہ لیاقت علی خان نے قرارداد مقاصد پیش کی۔ ہمیں مغربی تصورات اور سوشل میڈیا kids کے لادینی تصورات کو ignore کرکے اسلامی اصولوں کی پیروی کرنا چاہیئے کہ یہی کامیابی کا راز ہے ہمیں علمائے کرام کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے کہ انہی کی guidance کی وجہ سے ہم دورِ حاضر میں کم و بیش اہلبیت ع کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ورنہ توہین کرنے والے خاک ہمیں دین اور اہلبیت ع سے جوڑیں گے۔
بچوں کا اسکرین ٹائم سکرین کا وقت ہماری آج کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جب آپ ان آلات کے بارے میں سوچتے ہیں جن کی اسکرین ہے؟۔ اس کا احساس ہوتا ہے کہ ہمیں اس بارے میں کیوں فکرمند ہونا چاہیے؟ٹی وی،لیپ ٹاپ،موبا ئل،حتاکہ ہمارے گاڑیوں میں بھی اسکر ین مو جودہیں لیکن کیا اسکرین پر زیادہ وقت کاخرچ ہمارے بچوں کو متاثر کر سکتی ہیں؟ بچوں کے لئے اسکرین ٹائم پر قابو رکھنا مشکل ہوتا ہے ۔بچے ہر جگہ اپنے ساتھ اسکر ین رکتھے ہے، چاہےوہ کہی پر بھی جا ئے وہ ہمیشہ اپنے ٹی وی ، لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹ وغیرہ میں مصروف رہیں۔ اس سے والدین ابتدائی بچپن میں پریشان ہوجاتے ہیں دماغی نشوونما کا دور ، جہاں انہیں ذہنی صحت پر زیادہ توجہ دی جانی چاہئے ، خاص طور پر ننھے بچوں کو جو 5 سال سے کم عمر کے ہیں .لیکن اسکرین کے زیادہ استعمال کی وجہ سے وہ اپنے ذہنی اور جسمانی صحت کے استحکام کے لئے غیر مستحکم رہتے ہیں۔ بچوں کے لئے کتنا وقت محفوظ ہے؟ مریکی اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس (اے اے پی) کے مطابق ، انہوں نے مختلف عمر کے بچوں کے لئے وقت کی کچھ پیمائش کی ہے۔ 18ماہ سے کم عمر بچوں کو صرف کنبہ کے ساتھ ویڈیو کال محدود کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ اس عمر میں بچے جسمانی سرگرمیاں سیکھتے ہیں .لہذا والدین کو بچوںکی جسمانی صحت پر زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ 18سے 24 ماہ تک کے بچوں کو صرف ایک گھنٹہ کے لئے اسکرین فراہم کرنا چاہئے ، کیونکہ یہ ان کی تعلیم کا دورانیہ ہے اور ان کے والدین کی نگرانی میں دینا چاہئے۔ انہیں اسکرین کے ذریعہ اضافی چیز یں سیکھنے کے لئےفراہمی فراہم کرنا چاہئے۔ 2سے 5 سال کی عمر کے بچوں کو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے سیکھنے کی اہلیت کو بڑھانے کے لئے دن میں دو گھنٹے کی اجازت دی جانی چاہئے۔ 6سال اور اس سے زیادہ عمر کے بچوں کو ان کے والدین کی نگرانی میں ایک محدود وقت تک اسکر ین دینی چا ہیےاور والدین کو اپنے بچوں کےہر حر کت پر نظر رکھنی چا ہیے ۔کہ وہ کیا دیکھتے ہیں اور کیا نہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اے اے پی 6 سال کی عمر میں اسکرین کے استعمال کے لئے کوئی خاص وقت نہیں دیتی ہے ، یہ ان کے والدین کی نگرانی میں ہونا چاہئے جس سے ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما میں رکاوٹ نہیں آنی چاہئے .اوراس میں والدین اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسکرین کا معیار کیا ہونا چاہئے؟ جیسا کہ مقدار کی اہمیت ہے ، اسکرین کا معیار بھی بچوں کے لئے اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں والدین کا اہم کردار ہے ، جہاں بچوں کی والدین کے ذریعہ نگرانی کرنا چاہئے۔ ساری اسکرینیں برابر نہیں بنتیں ، کچھ میں کم معیار کی اسکرینیں ہوتی ہیں ، جیسے پر تشدد ویڈیو گیمز جو بچوں کے ساختی اور جسمانی طرز عمل کو متاثر کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ جب کسی بچے کی توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کو ختم کردیا جاتا ہے تو ، وہ اپنے آس پاس کی دنیا کے ساتھ مناسب طریقے سے سلوک نہیں کر پا تے ہیں ، جس کی وجہ سے وہ اکثر اوقات پریشان ہوجاتے ہیں ۔ والدین بچوں کی نگرانی کیسے کرسکتے ہیں؟ جیسا کہ والدین کے اہم کردار ادا کرنے سے پہلے کہا گیا ہے ، والدین اپنے بچوں کو اسکرین کے زیادہ استعمال سے بچنے کے لئے کیا اقدامات کر سکتے ہیں؟ کچھ اقدامات یہ ہیں: اپنے بچوں کے اسکرین کے لیے کچھ تعلیمی اور مثبت ویڈیوز یا سائٹیں بنائیں ، تاکہ وہ آن لائن اسکرین سے مثبت مواد سیکھ سکیں۔ اپنے بچے کے ساتھ اشتہار پر تبادلہ خیال کریں ، کس طرح کے اشتہارات نامناسب ہیں اور ان اشتہارات کو کیسے روکا جائے۔ آپ کو ان اشتہارات اور ویب سائٹس کو روکنا چاہئے جو آپ کے بچوں پر منفی اثرات ڈالتے ہیں ۔ والدین کو بچوں کے ساتھ ساتھ نو عمر وں کے لیے بھی اسکر ین کو محدود کرنا چا ہیے لیکن زیادہ سختی نہیں کر نی چاہیے کیونکہ نوعمروں کو زیادہ آزادی کی ضرورت ہوتی ہے اوروہ زیادہ انفرادیت کا مظاہرہ کر تے ہیں ۔ والدین اپنے بچوں کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں کہ وہ اپنے فیملی اور جسمانی سرگرمیوں سے کیسے جڑ سکتے ہیں۔ نتیجہ اسکرین ٹائم آج ایک حساس مسئلہ ہے ، اس سے پہلے کہ ہاتھ سے نیچے آجائے ہمیں کچھ قواعد پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ والدین کو اسکرین کا وقت محدود کرنا چاہئے ، اور اپنے بچوں کے ضرورت اور نفسیا ت کو سمجھنا چاہئے۔
دنیا کے چند دلچسپ حقائق 1۔1960میں امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسی (سی-آئی-اے) نےروس میں جاسوسی کے لیے بلیوں کو بھیجتے تھے۔ان بلیوں میں انہوں نے مائیکرو فون،انٹینااوربیٹری نصب کئے تھےتاکہ ان کی آواز سنی جا سکے۔سی-آئی-اے نے ان بلیوں کی تربیت کےلیے 10کروڈ ڈالر خرچ کیے تھے۔ 2۔آپ نے جیب کی گاڑی دیکھی ہوگی جو کہ ہر کام کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔یہ گاڑی سب سے پہلےامریکی فوج میں استعمال تھی ۔جس کوGPیعنیGeneral purposeکہا جاتا تھا۔جوکہ رفتہ رفتہJEEPمیں بدل گیا۔اور یہ ہر کام کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ 3۔ دنیامیں بہت سے سانپ پاۓ جاتےہیں ۔سانپ کی قسموں میں دوسروالے سانپ بھی پاۓ جاتے ہیں۔یہ تعداد کے حساب سے بہت کم پاۓ جاتے ہیں دلچسپ بات جواس میں ہے،کہ یہ دو منہ والے سانپ ہمیشہ الجھن کا شکاررہتے ہیں اور ایک دوسرےسےلڑتےرہتےہیں یہ کسی سمت کا تعین نہیں کرپاتے۔اورسب سے پہلےکھاناکھانے کے لیے لڑتے ہیں ۔ 4۔ دنیاکی سب سے مشہورٹھنڈی مشروبMarindaکوسب سے پہلے1959میں سپین میں بنایا گیاتھا۔Marindaلاطینی زبان کا لفظ ہے۔جس کا مطلب خوشگوار،دلفریب اورعمدہ ہے۔ 5۔ جہازمیں کھانا کھانا کوئی پسند نہیں کرتااورزیادہ تر اس میں بہت سے نقائص نکالتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہےکہ جب ہم جہاز میں سفر کرتے ہےتوھمارےچھکنےکی حس 50سے70 فیصد تک کم ہوجاتی ہے ۔ایک اور وجہ جہاز کی اونچائی کا پریشراورنمی ہے۔ 6۔ مشہورسائنسدان البرٹ آئن سٹائن کی آنکھیں موت کے بعد امریکہ کے شہر نیورک میں ایک لیبارٹری میں ایک بوتل میں رکھی گئ ہے۔اس کو مشہور امریکی پیتھالوجسٹThomas Harvey نے لیا تھا۔جس نے آئن سٹائن کا دماغ بھی اس کے موت کےبعد چرالیا تھا۔جوکہ اب بھی امریکہ کی ایک لیبارٹری میں موجود ہے۔ 7۔ اگرآپ کسی چیونٹی کو بہت زیادہ اونچائی سے پھینکتےہےتووہ چییونٹی پھر بھی نہیں مرتی۔اس کی وجہ یہ ہےکہ چیونٹی کی جسامت چھوٹی لیکن بہت مضبوط ہےاوروہ وزن میں بھی بہت ہلکی ہوتی ہے۔اس لیے اس کوجس قدر اونچائی سے پیھنکا جاۓ وہ نہیں مرتی۔ 8۔ انگلش زبان میں سب سے زیادہ خط Eکااستعمال کیا جاتاہے۔تقریباًانگلش میں 11فیصد الفاظوں میں خطE کا استعمال کیا جاتاہے۔اسکےبعدحروفA کا سب سے زیادہ استعمال کیاجاتاہے۔ 9۔ پرتگال ملک میں لال رنگ سے کوئ نہیں لکھتا کیونکہ اس ملک میں لال رنگ سےلکھنےکونفرت،برائ اورحقارت کی نظرسے دیکھا جاتاہیں۔اور پڑھنے والے کےلیے توہین کی علامت ہوتی ہیں۔ 10۔ دنیاکی کل آبادی تقریباً۔5۔7 بلین ہیں اور یہ پوری آبادی امریکہ کے شہرلاس اینجیلنس میں آباد ہوسکتی ہیں کیونکہ اس شہر کا کل رقبہ 500 مربع میل ہیں.جو کہ بہت زیادہ ہے۔اور دنیاکی تمام تر آبادی اس میں آسکتی ہیں۔