جب لال لال لہرائے گا!

In دیس پردیس کی خبریں
January 04, 2021

1947میں قیام پاکستان کے وقت صرف مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن (ایم ایس ایف) موجود تھی جس کا بنیادی کام مسلم لیگ کی معاونت کرنا تھا. اس تنظیم کی مدد سے مسلم لیگ نے اپنے اہداف کامیابی سے حاصل کیے اور ملک پاکستان کی بنیاد رکھی. تاہم مسلم لیگ نے پاکستان کی پہلی حکمران جماعت کی حیثیت سے اقتدار میں آنے کے فوری بات منتشر ہونا شروع ہوگئی. اس کے نتیجے میں ایم ایس ایف بھی مختلف گروپوں میں تقسیم ہو گی. پاکستان کے مختلف کالجز اور یونیورسٹیز میں طلبہ تنظیموں کا رجحان بڑھنے لگا.

1950ء میں کچھ طلبہ کی جانب سے ڈیموکریٹک سٹوڈنٹ فیڈریشن (ڈی ایس ایف) کی بنیاد رکھی گئی. ابتدا میں اس تنظیم کا کوئی قانون یا آئین تحریری طور پر موجود نہ تھا. آغاز کے وقت اس تنظیم کا مقصد تعلیمی مسائل کو دور کرنے اور ایم ایس ایف کے دھڑے بندی سے جو خلا پیدا ہوا اسے پور کرنا تھا. کراچی میں تقریبا تمام کالجز اور یونیورسٹیز میں اس تنظیم کو حمایت حاصل تھی. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تنظیم دوسرے شہروں میں نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب رہی. 1953ء میں کراچی کی ڈاؤ میڈیکل کالج میں ڈی ایس ایف نے ایک چارٹر آف ڈیمانڈ تیار کیا جس میں فیسوں میں کمی ,لائبریری کی سہولیات, بہتر کلاس روم اور کراچی میں ایک مناسب یونیورسٹی کی تعمیر جیسے مسائل شامل تھے. احتجاج کا دن بھی مقرر کیا گیا. ڈی ایس ایف کے کارکنان اس وقت کے وزیر تعلیم فضل الرحمن سے ملنے جلوس کی شکل میں نکلے. انتظامیہ کی جانب سے کارکنان پر حملہ کیا گیا جس میں 6 کارکن جان بحق ہوئے. اس احتجاج کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک بھی گونجی اور اس وقت کے وزیراعظم نظام الدین نے کارکنان کے وفد سے ملاقات کی اور مطالبات پر عمل درآمد کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی. محمد علی بوگرہ نے جب اقتدار حاصل کیا تو انھوں نے ان مطالبات پر عملدرآمد کیا اور کراچی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی. یہ ڈی ایس ایف تنظیم کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی تھی. 1954ء میں جب کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگائی گئی تو ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن کو بھی اس پابندی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس تنظیم پر کمیونسٹ پارٹی کا ساتھ کے دینے کا الزام تھا.

رفتہ رفتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئی تنظیمیں وجود میں آنے لگی. طلبہ تنظیموں کے ساتھ ساتھ سیاسی تنظیمیں بھی فعال ہونے لگی. 1960ء میں جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم سیاست کے اطراف سے ابھرنا شروع ہوئی اور مختلف کالجز اور یونیورسٹیاں میں دائیں بازو کی قوت بنی. 1984ء میں اس وقت کے آمر جنرل ضیاء نے ایسا قدم اٹھایا جو گزشتہ 35 سالوں سے اس ملک میں نافذ ہے کراچی میں طلباء یونین کے انتخابات سے عین قبل حکومت نے اعلان کیا کہ حکومت طلبہ یونین پر پابندی عائد کر رہی ہے. حکومت کی جانب سے تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کو اس کی وجہ قرار دیا. یہ فیصلہ اطلاق پر مبنی تھا کے حکومت مخالف طلباء اتحاد نے مضبوط سیاسی قوت حاصل کرلی ہے اور مستقبل میں طلبہ تحریک شروع کرنے کی پوزیشن میں ہو سکتی ہے جو ضیا کی آمریت کو چیلنج کر سکتی تھی. ملک بھر میں طلبہ تنظیموں کے دفاتر سیل کیے گئے.

سیاست میں نیا خون لانے کے لیے طلب تنظیم کلیدی کردار ادا کرتی ہیں اور شاید اس سے بہتر طریقہ اور نہ ہو. مشرف کے دور اختتام میں 2008ء میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے خطاب میں طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان بھی کیا لیکن عمل درآمد نہ ہو سکا. 23 اگست 2017 کو سینیٹ نے متفقہ قرارداد پاس کی جبکہ قومی اسمبلی میں ن لیگ کی اکثریت ہونے کے باوجود بھی پاس نہ کروا سکی. سندھ اسمبلی میں بھی یہ قرارداد اتفاق رائے سے منظور ہو چکی ہے مگر عملدرآمد نہ ہوسکا.

خیر آج کل کچھ طلباء جو اپنے خصوصی انداز میں اس نظام کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے دکھائی دے رہے ہیں پورے ملک میں ان کے نعروں کا چرچا ہے. ان طلبہ کے بقول وہ سرخ رنگ کا استعارہ امریکہ کے شکا کو کے واقعے سے لیتے ہیں. یہ نوجوان تمام حکمران, سرمایہ دار, جاگیرداروں کے ہوش ٹھکانے لگانے کی باتیں کرتے ہیں. طبقاتی نظام کے ساتھ ساتھ عورتوں کی آزادی کی بات بھی کی جاتی ہے. ان کی توپوں کا رکھ جماعت اسلامی کی طلباءتنظیم اور مذہب کا غیر ضروری استعمال کرنے پر ہے. سورو میں رنگ ڈالنے کے لیے تبروقا کا استعمال بھی لیا جاتا ہے جو مغربی دنیا میں زیادہ تر استعمال ہوتا ہے. اپنی انقلابی تحریک کو رنگ ڈالنے کے لیے آرٹ, سر کا استعمال کرتے اور مغربی طرز کو فوقیت دے رہے ہیں جو سرمایہ داری نظام پر انحصار کرتا ہے. ان میں سے کچھ لوگ جو اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی اپنی ہی جماعت سے منفرد اور جنگ کا اعلان کرتے دکھائی دیے. ایشیا کو بھی سرخ کرنے کے ارادے ہیں. لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ان لوگوں کا مطالبہ صرف طلبہ تنظیمیں بحال کرنا ہے یا پاکستان میں کمیونسٹ انقلاب لانا ہے.

کیونکہ اگر یہ طلباء تنظیموں کی بحالی کی بات کرتے ہیں تو وہ حق میں ہیں. لیکن اگر یہ انقلاب کی بات کرتے ہیں تو کیا کمیونسٹ حکومت میں طلبہ تنظیموں کا تصور بھی ہے. یہ کچھ ایسی باتیں ہیں جو سوچنے اور سمجھنے کی ہے. کمیونسٹ اور مارکسزم کے نظریے کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور کیا ہماری ریاست اور اسٹیبلشمنٹ اس کو ہونے دے گی. ہم گئی دہائیوں سے لبرلز کو فالو کر رہے ہیں اور سرمایہ داری نظام کے نقشے قدم پر چل رہے ہیں.اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی جماعت بھی طلباء تنظیموں کی بحالی کے لیے اس کی حمایت کر رہی ہیں.ہمیں بھی ان طلبہ کی جدوجہد میں بھرپور شرکت کرنی چاہیے اور حکومت طلبہ یونین کو فل فور بحال کرنے کا اعلان کرے. طلبہ یونین سے ہی نئے لیڈر ابھریں گے جو ملک کی نمائندگی کیلیے اپنی خدمات پیش کریں گے.

/ Published posts: 1

مصنف بین الاقوامی تعلقات کا طالب علم اور فری لانس صحافی ہے جو اس وقت اسلام آباد، پاکستان میں مقیم ہے. مصنف سے furqanraja1122@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے.

Facebook