محبت میں وصل شرط ہے

In ادب
January 04, 2021

سنو اے چاند سی لڑکی۔۔۔!
چلو آؤ آج تم کو ، اپنے خوابوں میں لئے چلتا ہوں۔۔

کہ جس حصار سے سوئے جاگے، کبھی نہ میں نکلتا ہوں
کبھی بھیگی ہوئی راتیں
کبھی خود سے کروں باتیں
تیرے وجود کو سوچے۔۔۔ میں اکثر یوں مچلتا ہوں۔۔
سنو اے چاند سی لڑکی۔۔۔!
چلو آؤ آج تم کو ، اپنے خوابوں میں لئے چلتا ہوں۔۔

وہ جو روشن روشن سی اک رات تھی
اس رات کی کچھ تو خاص بات تھی
چاند یوں تھا تاروں کے جھرمٹ میں
جیسے بچھڑے ہوؤں کی ملاقات تھی

مگر اس وصل کی رات میں بھی ، کچھ تو نا مکمل تھا
تھا وہ چاند کا حوصلہ یا تاروں کا تحمل تھا

پھر یوں ہوا ہمدم کہ

ایک چندا کو ترستی نگاہیں
تاروں کی پھیلی ہوئی بانہیں

انتظار کی سولی پہ لٹک کہ
اپنے رستوں سے بھٹک کہ

تاروں کی منتظر نگاہیں
آج بھی چندا کو بلاتی ہیں
فلک سے گرے تاروں سے
بس یہی سدائیں آتی ہیں

محبت میں وصل شرط ہے
محبت میں وصل شرط ہے

سنو اے چاند سی لڑکی۔۔۔۔!

جیسے چاند کے منتظر اس شب کے تارے تھے
تارے نہ کہو ان کو ، وہ تو ہجر کے مارے تھے

اس چندا کے ہجر میں
کہ
جس پہ تکبر کا راج ہو
جس پہ ہاوی سماج ہو
جس کی بے رخی سے
کسی کا کل برباد تھا
کسی کا غمگین آج ہو
جس پہ واری ہو لاکھوں
اسے کہاں تیری لاج ہو

اس چاند کو تو میسر تھے ہزاروں تارے
وہ بھلا اک تیرے صدقے کیوں اتارے؟
جو دسترس میں میری آنا نہیں تھا
کیوں کھول چھت پہ گیسو تھے سنوارے؟
جو دیکھتا آسماں تم کو
وہ بھی جان سے دل ہارے
ہم تو پھر بھی تھے ٹھہرے
لاکھوں میں اک ستارے

اوقات اپنی معلوم ہے ہم کو
مگر تم میرا یقیں کر لو
تم نے جہاں خود کو رکھا ہے
مجھے بھی تم وہیں کر لو
تیرے یوں چھوڑ جانے سے
کہاں میں مکمل ہو سکوں گا؟
چلو تم آسماں ہو جاؤ
اور مجھے تم زمیں کر لو

سنو اے چاند سی لڑکی۔۔۔!
تم کو کیا خبر کہ میں
بچھڑ کہ تجھ سے ، کیسے سنبھلتا ہوں
مگر پھر بھی تم آؤ تو ذرا
تم کو اپنے خوابوں میں لیے چلتا ہوں۔

یہ عشق تو جیسے کھا ہی گیا مجھ کو
اتنی بھیڑ میں بس تو ہی بھا گیا مجھ کو

مگر یہ کب تھا چاہا ہم نے؟
تو میسر بھی ہو تو صرف باتوں تک
یا پھر ہجر کی لمبی لمبی راتوں تک

سنو اے چاند سے لڑکے۔۔۔!
کون کہتا ہے
محبت میں وصل شرط ہے
یوں شرط لگانے سے
محبت ہار جاتی ہے
جیتے ہوئے عاشق کو
جیتے جی مار جاتی ہے
سنو اے چاند سے لڑکے۔۔۔۔!
وصل تو بچھڑے ہوؤں کا ہوتا ہے
اور یادیں کب بچھڑنے دیتی ہیں؟
یوں شرط لگانے سے
محبت ہار جاتی ہے
جیتے ہوئے عاشق کو
جیتے جی مار جاتی ہے

کیٹاگری میں : ادب، افسانے