صلح کے جسمانی اور روحانی فوائد

In ادب
January 02, 2021

صلح کے جسمانی اور روحانی فوائد

صلح عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا مادہ ص ل ح ہے۔ اس کا متضاد فساد ہے۔ جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں صلح کا متضاد فساد ہے۔ جب صلح نہ ہو تا گویا فساد کی کیفیت و حالت ہوتی ہے۔ اور اس کیفیت کو ختم کرنے کا لیے صلح ضروری ہے۔ فساد کی مختلف اشکال مثال کے طور پر گالی گلوچ، ہاتھا پائی ، جنگ و جدل ، لڑائی جھگڑا، قتل و غارت ، تباہی و بربادی، ذہنی و جسمانی بد امنی۔

کیا صلح کے جسمانی و بدنی فائدے بھی ہیں؟
فساد کی مختلف اشکال کا اوپر قدرے ذکر ہو چکا ہے۔ فساد کی صورت میں ہر طرح کی بد امنی ہوتی ہے۔ ذہنی بد امنی و بے سکونی کی صورت میں بالخصوص آجکل امراض پلب پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔ بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے۔ جو کہ ہارٹ اٹیک کا باعث بن سکتا ہے۔ کولیسٹرول بڑھ کر شریانوں میں رکاوٹ کا باعث بن کر دل و دماغ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ دماغ کی شریان اگر پھٹ جائے تو انسان کی موت واقع ہو سکتی ہے یا فالج ہو سکتا ہے۔ دائمی معزوری بھی ہو سکتی ہے۔ ذہنی و نفسیاتی بیماریاں مسلسل نیند نہ آنے کا باعث بن سکتا ہے اس کے علاوہ دوسری بیماریاں جیسے کہ فتور دماغ ذہنی واقع ہو کر پاگل پن ہو سکتا ہے۔ بے خوابی ہو کر روزمرہ کے کام کاج میں خلل پڑھ سکتا ہے۔ جب کوئی انسان کسی سے ناراض و خفا ہوتا ہے تو اس کی سوچ منفی ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب کے اس کو سب کچھ الٹا و متضاد دکھائی دیتا ہے۔ ایک خوش آنکھ جس سے وہ خوش ہو اس کے ہر عیب سے بند ہوتی ہے۔ جب کہ ایک ناراض آنکھ کو تمام اچھائیاں بھی برائیاں دکھائی دیتی ہیں۔ تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ تازہ ترین تحقیق کے مطابق ذہنی دباو اور کھچاو اس زمانہ میں بہر سے امراض پیدہ کرتا ہے۔

ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ امراض قلب و شریانیں ، کولیسٹرول ، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطیس ، نفسیاتی عوارض، دمہ جوڑوں کا درد ، جلدی امراض، ذہنی دباو ، تناو کھچاو کے نتیجہ میں پیدہ ہو سکتے ہیں۔ ذہنی بدامنی کے نتیجے میں بعض لوگ خودکشیاں بھی کر لیتے ہیں۔ دنیا میں اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ بہت سے امیر لوگ دولت مند ، فنکاروں ، اداکاروں نے محض ذہنی دباو کی وجہ سے خودکشیاں کیں۔ ذہنی دباو و تناو کھچاو کے نتیجہ میں میگرین یعنی آدھے سر کا درد ہو سکتا ہے۔ لو بلڈ پریشر اور نظان ہضم کی خرابیاں پیدہ ہو سکتی ہیں۔ بھوک مٹ جاتی ہے اور کھانا اچھے طریقے سے ہضم نہیں ہوتا۔ قبض جو کہ بیماریوں کی ماں ہیں اس کی شکایات بڑھ جاتی ہیں۔ لڑائی جھگڑوں کی صورت میں چونکہ سوچ منفی ہو جاتی ہے۔ لہذا منفی سوچ سے جھگڑوں سے پیدہ ہونے والی دوریاں وسیع سے وسیع ہوتی جاتی ہیں۔ بعض اوقات یہ مزید بڑھ کر دشمنیوں عداوتوں کو جنم دے کر اتنا بڑھ جاتی ہیں کہ مار پیٹ شروع ہو کر بات قتل ع غارت تک بات جا پہنچتی ہے۔ پھر صلح نہ ہونے پر کئی گھرانے برباد کئی گھرانوں کا سکون و چین برباد ہو جاتا پے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض لوگوں کے تو خاندان اجڑ جاتے ہیں۔

نام و نشان باقی نہیں رہتا۔ صلح کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ نفس کا موٹا پن اور تکبر ہوتا ہے۔ صلح سے انسان دماغی کام بڑھے ہی احسن طریقے سے کرتا ہے۔ اور جب صلح صفائی اور برداشت انسانوں میں پیدہ ہو جاتی ہے ایسے لوگوں کے گھرانے ہی دین اور دنیا میں ترقی کر جاتے ہیں اور صلح سے معاشرے ترقی کرتے ہیں علاقے ترقی کرتے ہیں ملک ترقی کرتے ہیں۔ صلح کے بے شمار جسمانی اور روحانی فوائد بھی ہیں۔ لڑائی جھگڑالو انسان کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا جبکہ امن سے رہنے والا ہر ایک کی بات کو ہنس کر برداشت کع جانے والا ہی راحانی طور پر صحت مند ہوتا ہے۔ اپنی زندگی میں امن وسکون چاہتے ہیں تو ہر دوسرے انسان کو برداشت کرنا سیکھ لو اگر نہیں کر سکتے تو لڑائی جھگڑا کیے بغیر اس سے دور ہو جاّو یہ ایک بہترین طریقہ ہے۔